إِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
آپ کا رب ان (سب) کے درمیاں ان (تمام (باتوں کا فیصلہ قیامت) کے دن کرے گا جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں (١)
1۔ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ....: پچھلی آیت میں اس وقت کا ذکر ہے جب بنی اسرائیل نے کتاب اللہ پر عمل کیا، ان کے علماء اور ائمہ خود دین پر قائم رہے، دوسروں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا فریضہ سرانجام دیتے رہے اور اس راستے میں اپنوں اور بیگانوں کی ایذا رسانی پر صبر کرتے رہے۔ بعد میں جب وہ دنیا پرستی اور طمع میں مبتلا ہو گئے، جانتے بوجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کے بجائے اس کی من مانی تاویل بلکہ اس میں تحریف کرنے لگے، ہر ایک نے اپنی مرضی کے مسائل ایجاد کر لیے تو وہ مختلف گروہوں میں بٹ گئے۔ ہر فرقہ اپنے آپ ہی کو سچا قرار دیتا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ان کے ان اختلافات کے بارے میں تیرا رب ہی قیامت کے دن فیصلہ فرمائے گا۔ 2۔ بنی اسرائیل کے ان حالات و واقعات میں امت مسلمہ کے لیے سبق ہے کہ امامت کا مقام کن لوگوں کو حاصل ہوتا ہے اور کسی قوم کے عروج و زوال کا باعث کیا چیز ہوتی ہے۔