وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا ۚ إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنتَقِمُونَ
اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جسے اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے وعظ کیا گیا پھر بھی اس نے ان سے منہ پھیر لیا (١) (یقین مانو) کہ ہم بھی گناہ گار سے انتقام لینے والے ہیں۔
1۔ وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّهٖ....: یہ استفہام انکاری ہے کہ ’’اس سے بڑا ظالم کون ہے؟‘‘ یعنی کوئی نہیں، وہی بڑا ظالم ہے جسے اس کے رب کی آیات کے ساتھ نصیحت کی گئی، پھر اس نے ان سے منہ پھیر لیا۔ ’’ ثُمَّ ‘‘ (پھر) کا مطلب یہ ہے کہ یہ بات بہت بعید اور تعجب والی ہے کہ آیاتِ الٰہی کے ساتھ نصیحت کے بعد بھی اس نے ان سے منہ پھیر لیا۔ وہ آیات (نشانیاں) جن کے ساتھ آدمی کو نصیحت ہوتی ہے، کئی طرح کی ہیں، ایک آفاقی نشانیاں، جو کائنات میں ہر طرف بکھری ہوئی ہیں، مثلاً سورج، چاند، ستارے، دن رات، ہوا، بارش، سمندر، کشتیاں اور زمین کی نباتات وغیرہ۔ دوسری وہ جو خود انسان کے نفس میں موجود ہیں، یعنی اس کی ساخت، اس میں رکھی گئی عجیب و غریب قوتیں اور استعدادیں اور اس کے اعضا کا حیران کن خود کار نظام۔ ان دونوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَ فِيْ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ﴾ [ حٰمٓ السجدۃ:۵۳] ’’عنقریب ہم انھیں اپنی نشانیاں دنیا کے کناروں میں اور ان کے نفسوں میں دکھلائیں گے، یہاں تک کہ ان کے لیے واضح ہو جائے کہ یہی حق ہے۔‘‘ تیسری وہ تاریخی واقعات جن سے ہمیشہ ایک ہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ جس قوم نے بھی اللہ کے مقابلے میں سرکشی اختیار کی اور اس کے رسولوں اور اس کی آیات کو جھٹلایا، تو اللہ نے اسے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ سورۂ ابراہیم کی آیت (۵) : ﴿ وَ ذَكِّرْهُمْ بِاَيّٰىمِ اللّٰهِ ﴾ اور سورۂ یوسف کی آیت (۱۱۱) : ﴿ لَقَدْ كَانَ فِيْ قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ ﴾ میں ایسے ہی واقعات کے ساتھ نصیحت اور عبرت مراد ہے۔ چوتھی جو آزمائشوں اور مصیبتوں کی شکل میں ہر شخص اور ہر قوم کے سامنے آتی ہیں، تاکہ وہ پلٹ آئیں، جن کا ذکر اس سے پہلی آیت میں ہے۔ پانچویں قسم اللہ تعالیٰ کی وہ آیات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے اپنے انبیاء پر نازل فرمائیں۔ ان آیات میں بھی گزشتہ چاروں قسم کی آیات پر غوروفکر کی طرف توجہ دلا کر اللہ تعالیٰ، اس کے رسولوں اور اس کے احکام پر عمل کی دعوت دی جاتی ہے۔ 2۔ اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِيْنَ مُنْتَقِمُوْنَ: ’’ الْمُجْرِمِيْنَ ‘‘ میں الف لام عہد کا ہے، اس لیے ترجمہ ’’ان مجرموں سے‘‘ کیا گیا ہے، یعنی آیاتِ الٰہی کے ساتھ نصیحت کے بعد منہ موڑ لینے والے ان مجرموں سے ہم یقیناً انتقام لینے والے ہیں، دنیا میں عذابِ ادنیٰ اور آخرت میں عذابِ اکبر کے ساتھ۔