أَلَمْ تَرَ أَنَّ الْفُلْكَ تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللَّهِ لِيُرِيَكُم مِّنْ آيَاتِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ
کیا تم اس پر غور نہیں کرتے کہ دریا میں کشتیاں اللہ کے فضل سے چل رہی ہیں اس لئے کہ وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھا دے، (١) یقیناً اس میں ہر ایک صبر و شکر کرنے والے (٢) کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔
1۔ اَلَمْ تَرَ اَنَّ الْفُلْكَ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللّٰهِ ....: اس سے پہلے اللہ نے’’ اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ ‘‘ میں اور’’ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ .....‘‘ میں اپنی بعض نعمتوں کی طرف توجہ دلائی، اب ’’ اَلَمْ تَرَ اَنَّ الْفُلْكَ ‘‘ میں سمندر میں چلنے والے جہازوں کی نعمت کی طرف متوجہ فرمایا۔ یعنی کیا تم نے دیکھا نہیں کہ کشتیاں اور بحری جہاز سمندر میں محض اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کے احسان کی بدولت چل رہے ہیں؟ کیونکہ اگر اس کا احسان نہ ہو تو پانی جو ایک سوئی نہیں اٹھاتا بلکہ غرق کر دیتا ہے، پہاڑوں جیسے لمبے چوڑے اور اونچے جہازوں کو اپنے سینے پر نہ اٹھائے رکھے۔ یہ اسی کا احسان ہے کہ اس نے پانی میں یہ خاصیت رکھ دی ہے کہ وہ ایک خاص حجم کی چیز کو نیچے نہیں جانے دیتا، کیونکہ پانی میں ہرچیز کا وزن ہوا میں وزن کی نسبت کم ہوتا ہے اور یہ کمی کسی چیز کے حجم کے برابر پانی کے حجم کے برابر ہوتی ہے۔ (تیسیرالقرآن) اگر اللہ تعالیٰ پانی کو اس طرح پیدا نہ فرماتا، پھر انسان کو پانی کی اس خاصیت کا علم عطا نہ فرماتا اور اس کے جد امجد نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے کا طریقہ نہ سکھاتا تو وہ کبھی اس میں کشتیاں یا جہاز نہ چلا سکتا اور نہ ہی اتنی وزنی چیزیں نہایت آسانی کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر سکتا، جو خشکی کے راستے منتقل کرنا اس کے لیے بے حد مشکل تھا۔( دیکھیے یٰس : ۴۱ تا ۴۴) پھر سمندر میں آندھیاں، طوفان اور تلاطم خیز موجیں انسان کو آنکھ جھپکنے میں ہلاکت سے دو چار کر سکتی ہیں اور سمندر میں اتنی عظیم الجثہ مخلوق موجود ہے جو ایک ہی ٹکر میں کشتیوں اور جہازوں کو ڈبو سکتی ہیں۔ پھر سمندر کے اندر پہاڑ ہیں جن سے ٹکرا کر جہاز پاش پاش ہو جاتے ہیں اور مقناطیسی چٹانیں ہیں جو انسان کی ساری کوششوں کے باوجود جہازوں کو کھینچ کر غرقاب کر دیتی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی کی خاص مہربانی ہوتی ہے کہ انسان اکثر اوقات سمندری سفر خیروعافیت سے طے کر لیتا ہے۔ 2۔ لِيُرِيَكُمْ مِّنْ اٰيٰتِهٖ : یعنی ایسی نشانیاں جن سے پتا چلتا ہے کہ سارے اختیارات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ انسان خواہ کیسے ہی مضبوط اور بحری سفر کے لیے موزوں جہاز بنالے اور جہاز رانی کے فن میں کتنا ہی کمال حاصل کر لے، سمندر میں پیش آنے والی ہولناک طاقتوں کے مقابلے میں جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل شامل نہ ہو وہ اکیلا اپنی تدابیر کے بل بوتے پر بخیریت سفر نہیں کر سکتا۔ 3۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ : یہ اس سوال کا جواب ہے کہ اتنی عظیم اور واضح نشانیوں کے باوجود مشرک ان سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے؟ فرمایا، ان نشانیوں سے توحید کا سبق ہمیشہ وہ لوگ حاصل کرتے ہیں جن میں دو وصف ہوں، ایک یہ کہ وہ ’’صَبَّارٍ ‘‘ (بہت بڑے صبر والے) ہوں، ان کے مزاج میں تلوّن نہ ہو، بلکہ ثابت قدمی ہو، گوارا و ناگوار، سخت اور نرم، اچھے اور برے تمام حالات میں صحیح عقیدے پر قائم رہیں۔ یہ نہیں کہ برا وقت آیا تو اللہ کے سامنے گڑگڑانے لگے اور اچھا وقت آنے پر سب کچھ بھول گئے، یا اس کے برعکس اچھے حالات میں تو اللہ تعالیٰ پر خوش رہے اور اس کی پرستش کرتے رہے اور مصیبت کی ایک چوٹ پڑتے ہی اسے گالیاں دینے لگے۔ دوسرا وصف یہ کہ وہ ’’ شَكُوْرٍ ‘‘ (بہت بڑے شکر کرنے والے) ہوں، نمک حرام اور احسان فراموش نہ ہوں، بلکہ ہمیشہ نعمت دینے والے کے لیے دل میں احسان مندی اور قدردانی کا جذبہ رکھیں اور اپنے قول و عمل سے اس کا شکر ادا کرتے رہیں۔ یہ دونوں وصف صرف مومن میں پائے جاتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَّهُ وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَّهُ )) [ مسلم، الزھد والرقائق، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر : ۲۹۹۹، عن صہیب رضی اللّٰہ عنہ ] ’’مومن کا معاملہ عجیب ہے، کیونکہ اس کا ہر معاملہ ہی خیر ہے اور یہ چیز مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں کہ اگر اسے کوئی خوشی پہنچے، وہ شکر کرتا ہے تو وہ اس کے لیے خیر ہوتی ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے، سو وہ بھی اس کے لیے بہتر ہوتی ہے۔‘‘