سورة لقمان - آیت 20

أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً ۗ وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان کی ہر چیز کو ہمارے کام میں لگا رکھا ہے (١) اور تمہیں اپنی ظاہری و باطنی نعمتیں بھرپور دے رکھی ہیں (٢) بعض لوگ اللہ کے بارے میں بغیر علم کے بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن کتاب کے جھگڑا کرتے ہیں (٣)۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ: ’’ اَلَمْ تَرَوْا ‘‘ کا معنی ’’اَلَمْ تَعْلَمُوْا‘‘ (کیا تم نے جانا) ہے، کیونکہ انسان نے آسمان و زمین کی ہر چیز کو اپنی آنکھوں سے اپنی خاطر مسخر شدہ نہیں دیکھا، مگر اس کے لیے دیکھنے کا لفظ اس لیے استعمال فرمایا کہ یہ بات اتنی واضح ہے جیسے آنکھوں سے دیکھی ہوئی بات ہوتی ہے۔ (بقاعی) ’’ سَخَّرَ لَكُمْ ‘‘ میں لام انتفاع کا ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ’’تمھاری خاطر مسخر کر دیا‘‘ کیونکہ چند چیزیں اگر انسان کے کسی حد تک تابع فرمان ہیں، جیسے چوپائے وغیرہ کہ انسان ان سے جس طرح چاہے فائدہ اٹھا سکتا ہے، تو بے شمار چیزیں ایسی ہیں جن پر انسان کا کوئی اختیار نہیں۔ انھیں انسان کی خاطر مسخر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں پابند کر دیا ہے کہ وہ سب اس کے فائدے اور خدمت کے لیے کام کریں، جیسے سورج، چاند، ستارے بلکہ فرشتے بھی جو اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ موذی جانور بھی آخر کار کسی نہ کسی طرح انسان کے فائدے کے لیے ہیں، حتیٰ کہ ابلیس بھی کہ وہ نہ ہوتا تو نہ آزمائش کا سلسلہ ہوتا، نہ اس میں کامیاب ہو کر انسان ہمیشہ کی جنت کا وارث بن سکتا۔ وہ لوگ اپنی حیثیت سے بہت بڑھ کر بولتے ہیں جو کہتے ہیں کہ آدمی سائنس کے ساتھ کائنات کو مسخر کر سکتا ہے۔ کائنات تو بہت دور کی بات ہے، یہ حضرات اپنے دل کی دھڑکن ہی کو مسخر کر کے دکھائیں، یا بچپن سے جوانی، پھر بڑھاپے کی منزلوں کو تابع فرمان بنا کر دکھائیں، چلیں موت ہی کو مسخر کر لیں۔ فرمایا : ﴿ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ اِنْ يَّقُوْلُوْنَ اِلَّا كَذِبًا ﴾ [ الکہف : ۵ ] ’’(یہ بات) بولنے میں بڑی ہے، جو ان کے مونہوں سے نکلتی ہے، وہ سراسر جھوٹ کے سوا کچھ نہیں کہتے۔‘‘ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کی دلیل ’’ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا .....‘‘ بیان فرمائی تھی، اب زمین و آسمان کی ہر چیز کو انسان کے فائدے کے لیے مسخر کرنے کو اپنی توحید کی دلیل کے طور پر بیان فرمایا کہ سوچو! اس خلق یا تسخیر میں تمھارے کسی معبود کا ذرہ برابر بھی دخل ہے؟ وَ اَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّ بَاطِنَةً: کھلی نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جن کا انسان اپنے حواس سے مشاہدہ کرتا ہے، یا وہ عقل سے معلوم ہوتی ہیں، یا اسے کسی کے بتانے سے معلوم ہوتی ہیں اور چھپی نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو انسان کے جسم کے اندر یا باہر اس کے مفاد کے لیے کام کر رہی ہیں، جن کا اسے شعور تک نہیں کہ اس کے پروردگار نے اس کے رزق، اس کی نشوونما اور حفاظت کے لیے کیا کچھ سامان فراہم کر رکھا ہے۔ مثلاً انسان کھانا کھا کر فارغ ہو جاتا ہے، اسے کچھ خبر نہیں کہ اس کے اندر کتنی مشینیں اسے ہضم کرنے، جزو بدن بنانے اور اس کے فضلے کو خارج کرنے کے لیے پوری مستعدی کے ساتھ مصروف عمل ہو جاتی ہیں۔ سائنس کے مختلف شعبوں میں جیسے جیسے تحقیق آگے بڑھتی جا رہی ہے اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتیں انسان کے سامنے بے نقاب ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ تو ہوئیں دنیوی اور مادی نعمتیں، دینی اور روحانی نعمتیں جو ظاہر اور پوشیدہ ہیں، وہ ان کے علاوہ ہیں اور ان سے کہیں زیادہ ہیں، جیسا کہ اسلام، قرآن، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت وغیرہ۔ رازی نے ’’ ظَاهِرَةً وَّ بَاطِنَةً ‘‘ کی ایک سادہ سی پُر لطف توجیہ کی ہے، وہ فرماتے ہیں : ’’ظاہری نعمتوں سے مراد اعضائے انسانی کا سلامت ہونا ہے اور باطنی نعمتوں سے مراد وہ قوتیں ہیں جو ان اعضا میں ودیعت کی گئی ہیں۔ دیکھیے آنکھ، کان، ناک اور زبان سب چربی، گوشت، ہڈی اور پٹھوں سے بنے ہیں، جو صاف نظر آتے ہیں، مگر ان میں دیکھنے، سننے، سونگھنے، چکھنے اور بولنے کی قوتیں باطنی نعمتیں ہیں۔ بعض اوقات باطنی نعمت مثلاً بینائی، شنوائی ختم ہو جاتی ہے، جب کہ ظاہری عضو، مثلاً آنکھ یا کان سلامت رہتا ہے۔ یہی حال ہر عضو کا ہے۔‘‘ وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللّٰهِ ....: یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں جو خلق، تسخیر اور دوسری بے شمار ظاہری و باطنی نعمتوں کے دلائل سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ثابت ہو چکنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی صفات میں جھگڑتے اور بحثیں کرتے ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ موجود بھی ہے یا نہیں؟ اور ہے تو ایک ہے یا اس کے ساتھ دوسرے بھی خدائی میں شریک ہیں؟ اور اس کی صفات کیا ہیں ؟ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّ لَا هُدًى وَّ لَا كِتٰبٍ مُّنِيْرٍ: علم حاصل کرنے کے تین مراتب ہیں، پہلا اپنی جدوجہد اور غوروفکر سے معلوم کرنا، دوسرا کسی علم والے سے رہنمائی حاصل کر لینا اور تیسرا کسی درست کتاب کے مطالعہ سے علم حاصل کر لینا۔ مشرکین کا حال یہ ہے کہ نہ ان کے پاس خود کوئی علم یا سمجھ بوجھ ہے جس کی بنا پر وہ حقیقت کو سمجھ سکیں، نہ انھیں کسی سچے راہ نما کی راہ نمائی حاصل ہے اور نہ ان کے پاس خود اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی کوئی کتاب موجود ہے جس سے انھوں نے یہ عقیدہ اخذ کیا ہو۔ بلکہ علم کے تینوں ذرائع سے محرومی کے بعد ان کی کل کائنات تقلید آباء ہے اور وہ اندھا دھند ان کے پیچھے چلے جا رہے ہیں۔ 5۔ حافظ صاحبان یاد رکھیں کہ’’ اَلَمْ تَرَوْا ‘‘ قرآن مجید میں صرف دو جگہ آیا ہے، ایک اس آیت میں اور دوسرا سورۂ نوح میں : ﴿ اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللّٰهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ﴾ [ نوح : ۱۵ ] ان کے علاوہ ہر جگہ واحد کے صیغے کے ساتھ ’’ اَلَمْ تَرَ‘‘ ہی آیا ہے۔