لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِن فَضْلِهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ
تاکہ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے فضل سے جزا دے جو ایمان لائے اور نیک (١) اعمال کئے وہ کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔
1۔ لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ....: اس میں قیامت کے دن لوگوں کے جدا جدا ہونے کی وجہ بیان فرمائی ہے۔ بقاعی نے فرمایا : ’’یہاں دو جملوں میں سے ہر ایک کا ایک حصہ حذف کر دیا اور ایک بیان کر دیا ہے، جس سے حذف شدہ حصہ خود بخود معلوم ہو رہا ہے۔‘‘ گویا مفصل کلام یوں ہو گا : ’’لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّهُ يُحِبُّ الْمُؤْمِنِيْنَ وَ لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ عَمِلُوا السَّيِّئَاتِ بِعَدْلِهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِيْنَ‘‘ ’’تاکہ وہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے اپنے فضل سے جزا دے، کیونکہ وہ ایمان والوں سے محبت کرتا ہے اور تاکہ وہ ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا اور برے اعمال کیے اپنے عدل کے ساتھ بدلا دے، کیونکہ وہ کافروں سے محبت نہیں کرتا۔‘‘ پہلے جملے میں سے ’’إِنَّهُ يُحِبُّ الْمُؤْمِنِيْنَ‘‘ حذف کر دیا اور دوسرے میں سے ’’لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ عَمِلُوا السَّيِّئَاتِ بِعَدْلِهِ‘‘ حذف کر دیا۔ اسے احتباک کہتے ہیں اور لمبی بات کو اس طرح مختصر کرنا قرآن کے بیان کا ایک حسن ہے۔ 2۔ مِنْ فَضْلِهٖ: یعنی ایمان اور عمل صالح والوں کو جنت میں داخلہ کسی استحقاق کی بنا پر نہیں ملے گا بلکہ محض فضل یعنی اصل بدلے سے زائد اجر کے طور پر ملے گا۔ کیونکہ دنیا میں اگر انسان نے اللہ کا شکر ادا کیا یا اس کا فرماں بردار بن کر رہا تو اس سے تو اس کے پہلے احسانات کا بدلا ہی پورا نہیں ہوتا، اس توفیق کا بدلا کس طرح ہوگا جس کے بغیر انسان کچھ بھی نہیں کر سکتا!؟ اس لیے بندوں کو جو اجر بھی ملے گا وہ ان کے اعمال سے زائد انعام ہی ہوگا۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا : (( لَنْ يُّدْخِلَ أَحَدًا عَمَلُهُ الْجَنَّةَ )) ’’کسی شخص کو اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔‘‘ لوگوں نے کہا : (( وَلاَ أَنْتَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ!؟ ] ’’اور کیا آپ کو بھی نہیں اے اللہ کے رسول!؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَا، وَلاَ أَنَا إِلاَّ أَنْ يَّتَغَمَّدَنِيَ اللّٰهُ بِفَضْلٍ وَ رَحْمَةٍ )) [ بخاري، المرضٰی، باب تمنی المریض الموت : ۵۶۷۳ ] ’’نہیں، مجھے بھی نہیں، اِلاّ یہ کہ اللہ مجھے فضل و رحمت کے ساتھ ڈھانپ لے۔‘‘