وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّهِ ۖ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ
تم جو سود پر دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں بڑھتا رہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں نہیں بڑھتا (١) اور جو کچھ صدقہ زکوٰۃ تم اللہ تعالیٰ کا منہ دیکھنے (اور خوشنودی کے لئے) دو تو ایسے لوگ ہی ہیں اپنا دوچند کرنے والے ہیں (٢)۔
1۔ وَ مَا اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَاۡ فِيْ اَمْوَالِ النَّاسِ ....: یعنی سود سے بظاہر مال بڑھتا دکھائی دیتا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا، بلکہ اس کی نحوست دنیا اور آخرت میں تباہی کا باعث ہے، جب کہ زکوٰۃ دینے کے ساتھ دنیا اور آخرت میں مال میں کئی گنا اضافہ ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ يُرْبِي الصَّدَقٰتِ ﴾ [ البقرۃ : ۲۷۶ ] ’’اللہ سود کو مٹا دیتا ہے اور صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔‘‘ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلرِّبَا وَ إِنْ كَثُرَ، فَإِنَّ عَاقِبَتَهُ تَصِيْرُ إِلٰی قُلٍّ)) [ مسند أحمد :1؍395، ح : ۳۷۵۳، قال المحقق صحیح ] ’’سود خواہ بہت ہو انجام اس کا یقیناً قلت ہی ہو گا۔‘‘ یہ سورت مکی ہے، مکہ میں ابھی سود حرام نہیں ہوا تھا، مگر کفارِ مکہ بری طرح سودی کاروبار میں مبتلا تھے۔ اللہ تعالیٰ نے شراب کی طرح سود کو بھی تدریجاً حرام کیا۔ اس آیت میں صرف اس کی مذمت بیان فرمائی، اس کے بعد مدینہ میں سورۂ آل عمران (۱۳۰) میں سود در سود کو اور سورۂ بقرہ (۲۷۵ تا ۲۸۱) میں ہر طرح کے سود کو مکمل طور پر حرام قرار دے دیا گیا۔ 2۔ بعض اہلِ علم نے اس آیت میں مذکور حقیقت کی مثال بیان فرمائی : ’’یعنی سود (بیاج) سے گو بظاہر مال بڑھتا دکھائی دیتا ہے لیکن حقیقت میں گھٹ رہا ہے۔ جیسے کسی آدمی کا بدن ورم سے پھول جائے، وہ بیماری یا پیام موت ہے اور زکوٰۃ نکالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مال کم ہو گا، فی الحقیقت وہ بڑھتا ہے۔ جیسے کسی مریض کا بدن مسہل و تَنقِیَہ سے گھٹتا دکھائی دے مگر انجام اس کا صحت ہو، سود اور زکوٰۃ کا حال بھی انجام کے اعتبار سے ایسا ہی سمجھ لو۔‘‘ 3۔ وَ مَا اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ....: جیسا کہ فرمایا : ﴿ مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗ اَضْعَافًا كَثِيْرَةً ﴾ [ البقرۃ : ۲۴۵ ] ’’کون ہے وہ جو اللہ کو قرض دے، اچھا قرض، پس وہ اسے اس کے لیے بہت زیادہ گنا بڑھا دے۔‘‘ (مزید دیکھیے بقرہ : ۲۶۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَا يَتَصَدَّقُ أَحَدٌ بِتَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ إِلَّا أَخَذَهَا اللّٰهُ بِيَمِيْنِهِ فَيُرَبِّيْهَا كَمَا يُرَبِّيْ أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ أَوْ قَلُوْصَهُ حَتّٰی تَكُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ أَوْ أَعْظَمَ )) [مسلم، الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب و تربیتھا : ۶۴ ؍۱۰۱۴ ] ’’کوئی شخص پاکیزہ کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ بھی کرتا ہے تو رحمان اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اس کے مالک کے لیے اس کو پالتا بڑھاتا ہے، جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے گھوڑی کے بچے کو یا اونٹنی کے بچے کو پالتا بڑھاتا ہے، حتیٰ کہ وہ کھجور پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے یا اس سے بھی بڑی۔‘‘ اور دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۷۶)۔ 4۔ اس آیت کی ایک اور تفسیر بھی کی گئی ہے، ابن کثیر فرماتے ہیں : ’’یعنی جو شخص کوئی ہدیہ دے جس سے اس کا ارادہ یہ ہو کہ لوگ اسے اس کے ہدیے سے زیادہ دیں گے تو اللہ کے ہاں اس میں کوئی ثواب نہیں۔‘‘ ابن عباس، مجاہد، ضحاک، قتادہ، عکرمہ، محمد بن کعب اور شعبی نے یہی تفسیر کی ہے۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’یہ کام مباح (جائز) ہے، اگرچہ اس میں ثواب نہیں، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے خاص طور پر منع کیا گیا ہے۔ یہ ضحاک کا قول ہے اور انھوں نے اللہ کے اس فرمان سے دلیل پکڑی ہے : ﴿ وَ لَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ ﴾ [ المدثر : ۶ ] ’’اور (اس نیت سے) احسان نہ کر کہ زیادہ لے۔‘‘ یعنی کوئی عطیہ نہ دے جس سے تو زیادہ حاصل کرنے کا ارادہ کرتا ہو۔‘‘ ابن عباس رضی اللہ عنھما کے اس قول کے متعلق ابن کثیر کے محقق نے فرمایا : ’’اسے طبری نے بیان کیا ہے، سند اس کی ضعیف ہے۔‘‘ حافظ ابن کثیر نے اسی مفہوم کا ابن عباس رضی اللہ عنھما کا ایک اور قول نقل فرمایا ہے کہ ’’ربا‘‘ دو طرح کا ہے، ایک ربا جو صحیح نہیں، یعنی بیع میں ربا اور ایک ربا جس میں کوئی حرج نہیں۔ وہ یہ ہے کہ آدمی کوئی ہدیہ دے، جس سے زیادہ حاصل کرنے کا ارادہ ہو، پھر یہ آیت پڑھی۔ ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے فرمایا : ’’سیوطی نے ’’در منثور‘‘ میں اسے ابن ابی حاتم کی طرف منسوب کیا ہے، جس میں آیت پڑھنے کا ذکر نہیں۔‘‘ لیکن میں نے ابن ابی حاتم میں اسے تلاش کیا تو اس میں ہے کہ مخطوطہ سے سورۂ روم کا حصہ ساقط ہے ۔ [ وَ اللّٰہُ أَعْلَمُ بِصِحَّتِہٖ ] جمال الدین قاسمی فرماتے ہیں : ’’اس تفسیر میں کئی لحاظ سے نظر ہے، پہلی یہ کہ یہ آیت سورۂ بقرہ کی آیت (۲۷۶) : ﴿ يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ يُرْبِي الصَّدَقٰتِ ﴾کے مشابہ ہے، جو بیع میں سود کے بارے میں ہے، جو اہلِ مکہ میں اس بری طرح پھیلا ہوا تھا کہ ان کا مزاج بن چکا تھا، جس کے ساتھ وہ تنگ دستوں کا مال اس برے طریقے سے چوس رہے تھے جس کا رحم، نرم دلی اور انسانی ہمدردی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس حال کی مذمت فرمائی، تاکہ وہ توبہ کر کے پاک ہوجائیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ربا کا حقیقی معنی سود ہی ہے، جسے سب لوگ جانتے ہیں۔ اس حقیقی معنی کو چھوڑ کر مجازی معنی مراد لینے کے لیے شرع یا عقل کی کوئی دلیل ہونی چاہیے جو یہاں موجود نہیں۔ تیسری وجہ یہ کہ آیت سے ہبہ و الا معنی مراد لے کر پھر ایسے ہبہ کو مباح قرار دینا محل نظر ہے، کیونکہ آیت کا اسلوب تو اس سے ڈرانے کا اور اس سے بچنے کی ترغیب کا ہے، جو اسے ناجائز چیزوں میں شامل کر رہا ہے اور انداز بیان کی دلالت بہت قوی دلالت ہوتی ہے۔ چوتھی وجہ یہ کہ سورۂ مدثر کی آیت (۶) : ﴿ وَ لَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ ﴾ (اور اس نیت سے احسان نہ کر کہ زیادہ حاصل کرے) کی رو سے یہ دعویٰ کہ ایسا ہبہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حرام تھا، محلِ نظر ہے۔ کیونکہ اگرچہ لفظوں میں خطاب صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگر حکم عام ہے۔ سورۂ مدثر کے شروع سے دیکھ لیجیے : ﴿ يٰاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَاَنْذِرْ (2) وَ رَبَّكَ فَكَبِّرْ (3) وَ ثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ﴾ یہ تمام احکام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پوری امت کے لیے بھی ہیں۔‘‘ خلاصہ یہ کہ اس آیت کی پہلی تفسیر ہی قابل اعتماد ہے۔