فَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
پس قرابت دار کو مسکین کو مسافر کو ہر ایک کو اس کا حق دیجئے (١) یہ ان کے لئے بہتر ہے جو اللہ تعالیٰ کا منہ دیکھنا چاہتے ہوں (٢) ایسے لوگ نجات پانے والے ہیں۔
1۔ فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِيْنَ وَ ابْنَ السَّبِيْلِ : فاء (پس) کا مطلب یہ ہے کہ جب ثابت ہوگیا کہ رزق کا فراخ ہونا یا تنگ ہونا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے تو آدمی کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اگر اس کا رزق فراخ ہے تو خرچ کرنے سے کم نہیں ہوگا اور اگر تنگ ہے تو روک کر رکھنے سے زیادہ نہیں ہو گا، بلکہ صدقے کی برکت سے اس میں اضافہ ہی ہو گا۔ ’’ حَقَّهٗ ‘‘ (اس کا حق) کا مطلب یہ ہے کہ تم قرابت دار، مسکین اور مسافر کو کچھ دے رہے ہو تو یہ اس کا حق ہے، جو تم ادا کر رہے ہو، جس کے ادا نہ کرنے پر اسی طرح باز پرس ہوگی جس طرح کسی قرض خواہ کا قرض ادا نہ کرنے پر باز پرس ہوگی۔ سورۂ توبہ (۶۰) میں زکوٰۃ کے آٹھ مصارف بیان فرمائے ہیں، یہاں ان میں سے صرف تین ذکر فرمائے۔ رازی نے اس میں یہ حکمت بیان فرمائی ہے کہ ان تینوں پر زکوٰۃ کے علاوہ خرچ کرنا بھی حق ہے، مثلاً والدین اور اولاد کا نفقہ ہے، اسی طرح درجہ بدرجہ قرابت داروں کی ضروریات پر خرچ ہے، یہ زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی واجب رہتا ہے۔ اسی طرح مسکین اور مسافر پر بھی خرچ واجب ہے۔ آدمی زکوٰۃ ادا کرنے کے ساتھ ان کے حقوق سے سبک دوش نہیں ہو جاتا۔ مثلاً ایک شخص زکوٰۃ ادا کرچکا ہے، اس کے پاس کوئی مہمان آجاتا ہے یا ایسا مسافر جس کا زاد راہ ختم ہو چکا ہے، یا مسکین آجاتا ہے جس نے کھانا نہیں کھایا یا وہ اپنی مسکینی کی وجہ سے پاؤں سے ننگا ہے تو ان کا حق ہے کہ ان پر خرچ کیا جائے۔ فقیر کی حالت مسکین سے بھی پتلی ہوتی ہے، اس لیے اس کا الگ ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ اس پر خرچ کرنا بالاولیٰ واجب ہے۔ رہے زکوٰۃ کے باقی چار مصارف، یعنی عاملین، مؤلفۃ القلوب، غارمین اور فی سبیل اللہ، تو وہ ایسے مصارف ہیں کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے بعد ان پر خرچ اس طرح واجب نہیں جس طرح آیت میں مذکور دیگر لوگوں پر واجب ہے۔ (واللہ اعلم) 2۔ ذٰلِكَ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ : عام طور پر اس کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہیں۔ اگرچہ ’’ وَجْهٌ‘‘ کا مطلب رضا ہو سکتا ہے، مگر ’’ وَجْهٌ‘‘ کا اصل معنی توچہرہ ہے۔ دوسرا معنی اس وقت کیا جاتا ہے جب حقیقی معنی مراد نہ لیا جا سکتا ہو، جب کہ یہاں حقیقی معنی مراد لینے میں کوئی مشکل نہیں، بلکہ جو لطف حقیقی معنی مراد لینے میں ہے وہ مجازی معنی مراد لینے میں نہیں، یعنی یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے چہرے کے دیدار کے طلب گار ہیں، کیونکہ اللہ کے دیدار سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔ اس آیت سے خرچ کرتے وقت نیت اللہ کے لیے خالص ہونے کی اہمیت ظاہر ہو رہی ہے۔ 3۔ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ: معلوم ہوا جو لوگ قرابت داروں، مسکینوں اور مسافروں کو ان کا حق ادا نہیں کرتے وہ کامل فلاح پانے والے نہیں ہو سکتے۔