وَإِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُم مُّنِيبِينَ إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا أَذَاقَهُم مِّنْهُ رَحْمَةً إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُم بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ
لوگوں کو جب کبھی کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اپنے رب کیطرف (پوری طرح) رجوع ہو کر دعائیں کرتے ہیں، پھر جب وہ اپنی طرف سے رحمت کا ذائقہ چکھاتا ہے تو ان میں سے ایک جماعت اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتی ہے۔
1۔ وَ اِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُمْ مُّنِيْبِيْنَ اِلَيْهِ : اس آیت میں اس بات کی دلیل بیان فرمائی کہ انسان کی فطرت توحید ہے کہ جب لوگوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کو اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے پکارتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ توحید کی شہادت ہر انسان کے دل کی گہرائیوں میں موجود ہے۔ وہ زبان سے اس کا اقرار نہ کرے مگر واقعات سے اس کی شہادت ملتی ہے۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں : ’’جیسے بھلے برے کام ہر انسان کی جِبِلَّت پہچانتی ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہونا بھی ہر انسان کی جِبِلَّت پہچانتی ہے، جو ڈر کے وقت کھل جاتی ہے (یعنی مصیبت پیش آنے پر ظاہر ہو جاتی ہے)۔‘‘ 2۔ ثُمَّ اِذَا اَذَاقَهُمْ مِّنْهُ رَحْمَةً ....: ’’پھر جب وہ انھیں اپنے پاس سے کوئی نعمت عطا کرتا ہے‘‘ مثلاً بیماری سے شفا یا طوفان سے نجات یا بدحالی کے بعد خوش حالی اور دولت مندی وغیرہ، جو خالص اس کی طرف سے ہوتی ہے، کسی دوسرے کا اس میں کوئی دخل یا اختیار نہیں ہوتا، تو اچانک وہ اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو شریک بنا رہے ہوتے ہیں، چنانچہ وہ دوسرے معبودوں کی نذریں ماننے اور چڑھاوے چڑھانے لگتے ہیں اور کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہم سے یہ مصیبت فلاں بزرگ یا فلاں آستانے کے صدقے سے ٹلی ہے۔ ’’اچانک‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ تکلیف دور ہوتے ہی فوراً ناشکری اور شرک کرنے لگتے ہیں۔