فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَىٰ مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّهِ آمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ
مگر جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کا کفر محسوس کرلیا (١) تو کہنے لگے اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے (٢) حواریوں (٣) نے جواب دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہیے کہ ہم تابعدار ہیں۔
1۔ فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِيْسٰى مِنْهُمُ الْكُفْرَ....: یعنی صرف عقل سے نہیں سمجھا بلکہ حواس سے معلوم کر لیا، آنکھوں اور کانوں سے یہ حقیقت جان لی کہ یہود اور ان کے علماء اللہ کی دی ہوئی نشانیوں اور دلائل و معجزات کے سامنے بے بس ہوچکے ہیں، مگر ماننے کے لیے کسی صورت آمادہ نہیں، بلکہ ان کی زندگی کے درپے ہیں اور اس مقصد کے لیے سازشیں کر رہے ہیں تو انھیں اپنے دنیا سے رخصت ہونے میں کچھ شبہ نہ رہا۔ اب انھیں فکر تھی تو یہ کہ دین کی اشاعت و تبلیغ کا کام رکنا نہیں چاہیے، چنانچہ انھوں نے اپنے پیروکاروں سے پوچھا کہ کون ہے جو اللہ کی طرف دعوت دینے اور اس کے راستے پر چلنے اور چلانے میں میرا مددگار ہو؟ اللہ تعالیٰ نے چند لوگوں کو توفیق عطا فرمائی، وہ ایمان لائے اور پوری تن دہی کے ساتھ عیسیٰ علیہ السلام کی مدد کرتے رہے اور یہی لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے حواری کہلائے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اپنے ساتھیوں سے مدد مانگ رہے ہیں، اگر وہ مختار کل ہوتے تو مدد مانگنے کی کیا ضرورت تھی۔ ہمارے دور کے قبرپرست بھی عجیب ہیں، اس آیت سے استدلال کرکے فوت شدہ بزرگوں سے وہ چیزیں مانگتے ہیں جو ان کے اختیار میں نہیں اور دلیل میں یہ آیت پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ اس میں بزرگوں نے چھوٹوں سے وہ مدد مانگی ہے جو ان کے اختیار میں تھی۔ 2۔ عیسیٰ علیہ السلام کا یہ قول ویسا ہی ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت سے پہلے زمانۂ حج میں مختلف قبائل عرب سے فرمایا کرتے تھے کہ کون ہے جو مجھے پناہ دے تاکہ میں لوگوں تک اپنے رب کا پیغام پہنچا سکوں، اس لیے کہ قریش نے مجھے یہ پیغام پہنچانے سے روک رکھا ہے ؟ تاآنکہ آپ کو انصار مل گئے، جنھوں نے آپ کو پناہ دی اور اپنی جان و مال سے آپ کی مدد کی۔ مگر آپ کے حواری (خاص جاں نثار و مددگار) صرف انصار ہی نہ تھے، مہاجر بھی تھے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خندق کے دوران میں تین دفعہ پوچھا:’’کون ہے جو بنوقریظہ کی خبر لائے گا؟‘‘ تینوں دفعہ زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں، میرا حواری زبیر ہے۔‘‘ [مسلم، فضائل الصحابۃ، باب من فضائل طلحۃ....: ۲۴۱۵، عن جابر بن عبد اللّٰہ رضی اللہ عنہما ]