سورة الروم - آیت 30

فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پس آپ یک سو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کردیں (١) اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے (٢) اس اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں (٣) یہی سیدھا دین ہے (٤) لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ (٥)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا : ’’ لِلدِّيْنِ ‘‘ میں ’’الف لام‘‘ عہد کا ہے، یعنی یہ دین جس میں خالق و مالک اور معبود برحق صرف اللہ تعالیٰ کو مانا گیا ہے، جس میں اس کی ذات یا صفات یا افعال میں کسی کو شریک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ ’’ حَنِيْفًا ‘‘ ’’حَنَفَ‘‘ (حاء کے ساتھ) کا لفظی معنی مائل ہونا ہے، اکثر استعمال تمام راستوں سے ہٹ کر ایک سیدھے راستے کی طرف آنے کے معنی میں ہوتا ہے، جب کہ ’’جَنَفَ‘‘ (جیم کے ساتھ) کا مطلب سیدھے راستے سے ہٹ کر اِدھر یا اُدھر ہوجانا ہوتا ہے۔ ’’ فَاَقِمْ ‘‘ میں ’’فاء‘‘ (پس) کا مطلب یہ ہے کہ جب اتنے سارے دلائل سے ثابت ہو گیا کہ اس کائنات کا خالق و مالک اور عبادت و اطاعت کا مستحق اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں، تو لازم ہے کہ تم اپنا چہرہ اس دین کی طرف سیدھا رکھو، نہ ذرہ برابر ادھر ادھر دیکھو اور نہ اس ایک سیدھی راہ سے اِدھر اُدھر ہٹو۔ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا: ’’ فِطْرَتَ ‘‘ کا معنی پیدائش ہے، ’’اللہ تعالیٰ کی فطرت‘‘ سے مراد وہ حالت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا ہے اور وہ اللہ کی توحید اور دین اسلام ہے، جو ہر آدمی کے دل میں پیدائش کے ساتھ ہی رکھ دی گئی ہے کہ تیرا خالق و مالک اللہ ہے اور تو اس کا بندہ اور غلام ہے، لہٰذا تیرے لیے اس پر قائم رہنا لازم ہے۔ اگر انسان کو اس کی طبعی حالت پر چھوڑ دیا جائے اور بیرونی اثرات سے اس کے دل و دماغ کو محفوظ رکھا جائے تو وہ توحید اور دین فطرت ہی اختیار کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ’’ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ‘‘ کے ساتھ آدم علیہ السلام کی اولاد کے ہر فرد سے اپنے رب ہونے کا عہد لیا ہے اور اسی عہد کے متعلق باز پرس ہوگی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۱۷۲، ۱۷۳) کی تفسیر۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ إِلاَّ يُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ ، كَمَا تُنْتَجُ الْبَهِيْمَةُ بَهِيْمَةً جَمْعَاءَ، هَلْ تُحِسُّوْنَ فِيْهَا مِنْ جَدْعَاءَ؟ ثُمَّ يَقُوْلُ : ﴿ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ﴾)) [ بخاري، التفسیر، باب : ﴿ لا تبدیل لخلق اللّٰہ ﴾ : ۴۷۷۵ ] ’’کوئی بچہ نہیں جو پیدا ہو مگر وہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی بنا دیتے ہیں یا نصرانی بنا دیتے ہیں یا مجوسی بنا دیتے ہیں، جیسے جانور پیدا ہوتا ہے تو صحیح سالم جانور پیدا ہوتا ہے۔ کیا تم نے ان میں سے کوئی کان یا ناک کٹا ہوا دیکھا ہے؟‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی : ﴿ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ ﴾ [ الروم : ۳۰ ]‘‘ اسود بن سریع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ((أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ سَرِيَّةً يَوْمَ خَيْبَرَ فَقَاتَلُوا الْمُشْرِكِيْنَ، فَأَمْضٰی بِهِمُ الْقَتْلُ إِلَی الذُّرِّيَّةِ، فَلَمَّا جَاؤُوْا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا حَمَلَكُمْ عَلٰی قَتْلِ الذُّرِّيَّةِ؟ فَقَالُوْا يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! إِنَّمَا كَانُوْا أَوْلاَدَ الْمُشْرِكِيْنَ، قَالَ وَهَلْ خِيَارُكُمْ إِلاَّ أَوْلاَدُ الْمُشْرِكِيْنَ، وَالَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ! مَا مِنْ نَسَمَةٍ تُوْلَدُ إِلاَّ عَلَی الْفِطْرَةِ، حَتّٰی يُعْرِبَ عَنْهَا لِسَانُهَا )) [مستدرک حاکم :2؍123، ح ۲۵۶۶، وصححہ الحاکم و وافقہ الذھبي و صححہ الألباني في سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ۴۰۲ ] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن ایک دستہ بھیجا، انھوں نے مشرکین سے جنگ کی، یہاں تک کہ قتل کرتے کرتے وہ بچوں تک جا پہنچے۔ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تمھیں بچے قتل کرنے پر کس چیز نے آمادہ کر دیا؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’یا رسول اللہ! وہ مشرکین کی اولاد ہی تو تھے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم میں سے بہترین لوگ مشرکین کی اولاد ہی تو ہیں، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! کوئی جان پیدا نہیں ہوتی مگر فطرت پر، یہاں تک کہ اس کی زبان اس کے مطالب کا اظہار کرنے لگتی ہے۔‘‘ مشرکین کے فوت شدہ بچوں کے حکم کے لیے دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۱۵) اور اعراف (۱۷۲، ۱۷۳) کی تفسیر۔ عیاض بن حمار مجاشعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا : (( أَلَا إِنَّ رَبِّيْ أَمَرَنِيْ أَنْ أُعَلِّمَكُمْ مَا جَهِلْتُمْ مِمَّا عَلَّمَنِيْ يَوْمِيْ هٰذَا كُلُّ مَالٍ نَحَلْتُهُ عَبْدًا حَلَالٌ وَإِنِّيْ خَلَقْتُ عِبَادِيْ حُنَفَاءَ كُلَّهُمْ وَ إِنَّهُمْ أَتَتْهُمُ الشَّيَاطِيْنُ فَاجْتَالَتْهُمْ عَنْ دِيْنِهِمْ وَحَرَّمَتْ عَلَيْهِمْ مَا أَحْلَلْتُ لَهُمْ وَ أَمَرَتْهُمْ أَنْ يُّشْرِكُوْا بِيْ مَا لَمْ أُنْزِلْ بِهِ سُلْطَانًا )) [ مسلم، الجنۃ و صفۃ نعمیہا، باب الصفات التي یعرف بھا....: ۲۸۶۵ ] ’’سنو! میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ اس نے مجھے میرے آج کے دن میں جو کچھ سکھایا ہے تمھیں اس میں سے چند وہ باتیں سکھاؤں جن سے تم واقف نہیں ہو۔ (وہ فرماتا ہے کہ) ہر وہ مال جو میں نے کسی بندے کو عطا کیا ہے وہ حلال ہے اور میں نے اپنے تمام بندوں کو ’’حنفاء‘‘ (ایک اللہ کے ہو جانے والے) پیدا کیا ہے اور ہوا یہ کہ ان کے پاس شیاطین آئے اور انھوں نے ان کو ان کے دین سے پھیر دیا اور ان کے لیے وہ چیزیں حرام کر دیں جو میں نے ان کے لیے حلال کی تھیں اور انھوں نے ان کو حکم دیا کہ میرے ساتھ ان چیزوں کو شریک بنائیں جن کی میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔‘‘ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ : یعنی اللہ کا دین (اسلام) جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اسے بدلنا، توحید کے بجائے شرک کرنا یا اس کے حلال و حرام کے احکام کو تبدیل کرنا جائز نہیں۔ الفاظ کے عموم میں یہ بھی آتا ہے کہ جس شکل پر اللہ تعالیٰ نے کسی کو پیدا کیا ہے اسے بدلنا اور اس کے کان یا ناک وغیرہ کو کاٹنا جائز نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ نساء کی آیت (۱۱۹) کی تفسیر۔ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ : یعنی شریعتِ اسلام اور فطرتِ سلیمہ پر مضبوطی سے قائم رہنا ہی بالکل سیدھا اور مضبوط دین ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے، بلکہ باپ دادا کے رسم و رواج اور شیطان کے پیچھے چل کر فطرت کے خلاف کفر و شرک کو اختیار کیے جاتے ہیں۔