سورة الروم - آیت 27

وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ ۚ وَلَهُ الْمَثَلُ الْأَعْلَىٰ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

وہی ہے جو اول بار مخلوق کو پیدا کرتا ہے پھر سے دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ تو اس پر بہت ہی آسان ہے۔ اسی کی بہترین اور اعلٰی صفت ہے (١) آسمانوں میں اور زمین میں بھی اور وہی غلبے والا حکمت والا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ هُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَ هُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ : اللہ تعالیٰ نے یہ بات بندوں کے کہنے اور کرنے کے لحاظ سے فرمائی ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ کے لیے تو پہلی دفعہ اور دوسری دفعہ پیدا کرنا برابر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم یہ تو مانتے ہو کہ تمام مخلوقات کو پہلی بار اسی نے پیدا کیا ہے اور یہ بھی سمجھتے ہو کہ جس نے ایک دفعہ کسی چیز کو بنایا ہو اس کے لیے اس چیز کو دوبارہ بنانا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ اس لیے تمھارے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے لیے، جس نے پہلی بار تمام مخلوقات بنائی ہے، دوسری مرتبہ اسے پیدا کرنا زیادہ آسان ہونا چاہیے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( قَالَ اللَّهُ كَذَّبَنِي ابْنُ آدَمَ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذٰلِكَ ، وَشَتَمَنِيْ وَلَمْ يَكُنْ لَّهُ ذٰلِكَ ، أَمَّا تَكْذِيْبُهُ إِيَّايَ أَنْ يَّقُوْلَ إِنِّيْ لَنْ أُعِيْدَهُ كَمَا بَدَأْتُهُ ، وَأَمَّا شَتْمُهُ إِيَّايَ أَنْ يَّقُوْلَ اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا، وَأَنَا الصَّمَدُ الَّذِيْ لَمْ أَلِدْ وَلَمْ أُوْلَدْ وَلَمْ يَكُنْ لِّيْ كُفُوًا أَحَدٌ )) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ﴿ اللّٰہ الصمد ﴾ ۴۹۷۵، ۴۹۷۴ ] ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ابن آدم نے مجھے جھٹلا دیا، حالانکہ یہ اس کا حق نہ تھا اور اس نے مجھے گالی دی، حالانکہ یہ اس کا حق نہ تھا۔ اس کا مجھے جھٹلانا تو اس کا یہ کہنا ہے کہ وہ (اللہ) مجھے دوبارہ نہیں بنائے گا جس طرح اس نے مجھے پہلی دفعہ پیدا کیا اور اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے، اللہ نے کوئی اولاد بنا رکھی ہے، حالانکہ میں اکیلا ہی ہوں، بے نیاز ہوں، جس نے نہ کسی کو جنا نہ کسی نے اسے جنا اور کوئی بھی اس کا کبھی شریک نہیں۔‘‘ وَ لَهُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ :’’ الْمَثَلُ ‘‘ سے مراد یہاں صفت اور شان ہے، یعنی زمین ہو یا آسمان، پوری کائنات میں سب سے اعلیٰ صفت اور سب سے اونچی شان صرف اس کی ہے۔ ’’ لَهُ ‘‘ کو پہلے لانے سے حصر پیدا ہو گیا، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ’’اور آسمانوں اور زمین میں سب سے اونچی شان اسی کی ہے۔‘‘ طبری نے معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول ذکر کیا ہے : (( قَوْلُهُ : ﴿ وَ لَهُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى فِي السَّمٰوٰتِ ﴾ يَقُوْلُ : ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ﴾ )) یعنی یہ زیر تفسیر آیت اللہ کے اس فرمان کی طرح ہے : ﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ﴾ [ الشورٰی : ۱۱ ] ’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں۔‘‘ یعنی اعلیٰ سے اعلیٰ صفات اور اونچی سے اونچی شان اسی کی ہے، اس کی مثل کوئی چیز نہیں۔ زمین و آسمان کی کوئی بھی چیز حسن و خوبی میں اللہ تعالیٰ کی شان اور صفات کے برابر تو کیا اس سے کوئی نسبت ہی نہیں رکھتی، کیونکہ کسی چیز میں کوئی خوبی موجود بھی ہے تو اس کی عطا کردہ ہے۔ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ : خبر کے معرف باللاّم آنے کے ساتھ حصر پیدا ہو رہا ہے، یعنی وہی ہے جو سب پر غالب ہے۔ وہ جو چاہے کرے، نہ اس کے لیے کچھ مشکل ہے نہ کوئی اس کے ارادے میں رکاوٹ بن سکتا ہے، مگر غالب ہونے کے ساتھ وہ کمال حکمت والا بھی ہے۔ اس کا غلبہ اندھے کی لاٹھی نہیں، بلکہ کمال حکمت پر مشتمل ہے۔