سورة الروم - آیت 7

يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

وہ تو (صرف) دنیاوی زندگی کے ظاہر کو (ہی) جانتے ہیں اور آخرت سے بالکل ہی بے خبر ہیں (١)۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يَعْلَمُوْنَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ....: ’’ ظَاهِرًا ‘‘ پر تنوین تقلیل و تحقیر کے لیے ہے، یعنی وہ دنیا کی زندگی کے بس ظاہر کو جانتے ہیں، وہ بھی تھوڑا سا۔ ان کا علم یہیں تک محدود ہے۔ ان کی ساری تگ و دو دنیا میں کھانے پینے، پہننے اور ہر قسم کی لذتوں اور آسائش و آرائش کے زیادہ سے زیادہ حصول کے لیے ہے۔ وہ دنیا کی زندگی کے باطن، یعنی اس کی اصل حقیقت کی طرف توجہ نہیں کرتے کہ یہ چند روزہ ہے اور امتحان گاہ ہے۔ رہی آخرت، تو وہ اس سے بالکل ہی غافل ہیں، یعنی انھیں اس کی فکر ہی نہیں کہ وہاں اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے پیش ہونا ہے۔ 2۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اکثر لوگ دنیا کی زندگی کے ظاہر کے کچھ حصے کو جانتے ہیں، جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کفار حیران کن ایجادات کر چکے ہیں، مثلاً بری، بحری اور فضائی سواریاں، تیل، گیس، ہوا اور پانی سے چلنے والی بے شمار قسم کی مشینیں، بجلی اور ایٹم وغیرہ، تو یہ سب کچھ تھوڑا سا کیسے ہوا؟ جواب اس کا یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی دنیوی ترقی جس طرح آج کے مقابلے میں بالکل معمولی ہے، اسی طرح ہر آنے والے دن کے مقابلے میں موجودہ ترقی بالکل معمولی ہے، مگر کافر صرف اسی ترقی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، آخرت کے امور کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے۔ 3۔ کفار کے دنیا کے ظاہر کا کچھ علم رکھنے اور آخرت سے یکسر غافل ہونے کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ انھوں نے حساب اور علم ہندسہ میں اتنا کمال حاصل کیا کہ انھوں نے کیلکولیٹر اور کمپیوٹر ایجاد کر لیے، جن کے ذریعے سے وہ بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی رقموں کا بالکل صحیح حساب لگا لیتے ہیں، مگر آخرت کے معاملات سے اس قدر بے خبر ہیں کہ ان میں سے بعض پیدا کرنے والے ہی کے منکر ہیں۔ جب کہ جاہل سے جاہل شخص بھی جانتا ہے کہ کوئی چیز بنانے والے کے بغیر نہیں بنتی۔ پھر بعض اعلیٰ درجے کی مخلوق ہو کر پتھروں کو پوج رہے ہیں اور بعض ایک رب ماننے کے بجائے تین رب مانتے ہیں، مسیح خدا، مریم خدا اور روح القدس خدا، جو ایک جمع ایک، جمع ایک کے نتیجے میں تین خدا بنتے ہیں، مگر ان کا اصرار ہے کہ یہاں ایک جمع ایک، جمع ایک تین نہیں بنتے بلکہ ایک خدا بنتا ہے۔ بتائیے اس سے بڑھ کر جہالت کیا ہو سکتی ہے، کبھی ایک، ایک اور ایک بھی ایک ہو سکتے ہیں؟ پھر ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ ہم توحید فی التثّلیث کو اس لیے مانتے ہیں کہ یہ عقل سے اونچی بات ہے، حالانکہ یہ بھی ان کی جہالت ہے۔ کوئی شخص دو جمع دو کا نتیجہ پانچ نکالے تو یہ عقل سے اونچی بات نہیں ہو گی، بلکہ صریح عقل کے خلاف ہو گی۔ یہی حال تین خداؤں کے ایک خدا ہونے کا ہے۔