يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ أَرْضِي وَاسِعَةٌ فَإِيَّايَ فَاعْبُدُونِ
اے میرے ایماندار بندو! میری زمین بہت کشادہ ہے سو تم میری ہی عبادت کرو (١)
1۔ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا: یہ حقیقت ہے کہ ساری مخلوق ہی اللہ تعالیٰ کے عبد (غلام) ہیں۔ پھر یہ بندے دوقسم کے ہیں، مومن اور کافر۔ دونوں کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا، مومن نے اپنی پسند چھوڑ کر رب کی پسند اختیار کی، اس کی مرضی کو اپنی مرضی پر ترجیح دی، چنانچہ وہ ہر چیز میں اللہ کا عبد، بندہ اور غلام بن گیا۔ جو مالک نے کہا، کیا، جس سے روک دیا اس سے رک گیا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے’’ يٰعِبَادِيْ‘‘(اے میرے بندو!) کے معزز اور پیار بھرے الفاظ کے ساتھ مخاطب فرمایا۔ کافر بھی اگرچہ اللہ ہی کا بندہ ہے مگر اس نے اپنے رب کے سامنے سرکشی اختیار کی، اس کی مرضی کے بجائے اپنی مرضی پر چلا، سو محبت کے خطاب سے محروم رہا۔ ’’يٰعِبَادِيْ‘‘ کے بعد ’’ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ‘‘ اس بات کے اظہار کے لیے ہے کہ ان لوگوں کو یہ شرف ایمان کی وجہ سے حاصل ہواہے۔ 2۔ اِنَّ اَرْضِيْ وَاسِعَةٌ: اس سورت کا مضمون ہے اہلِ ایمان کی آزمائش، یہ آزمائش بعض اوقات اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ اپنے وطن میں رہنے کی صورت میں مومن کا ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے، کفار کا ظلم و ستم اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ وہ اپنے دین پر نہ عمل کر سکتا ہے نہ اس کی دعوت دے سکتا ہے۔ سورت کے نزول کے وقت مکہ میں مسلمانوں کا یہی حال تھا۔ ایسی صورت میں انھیں ہجرت کی ترغیب دی کہ اگر مکہ کی سرزمین میں، جہاں تم اب ہو، میری بندگی بجا لانا مشکل ہو رہا ہے تو میری زمین تنگ نہیں، بہت فراخ ہے، تم اپنا وطن چھوڑ کر کسی ایسی جگہ چلے جاؤ جہاں تم آزادی سے میری بندگی کر سکو۔ ابراہیم اور لوط علیھما السلام کی مثالیں اسی سورت میں اس سے پہلے گزر چکی ہیں۔ مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی، پھر مدینہ منورہ کی طرف اور اللہ تعالیٰ نے انھیں امن و اطمینان اور آزادی کی نعمت بھی عطا فرمائی اور فراخ رزق کی بھی۔ اب بھی یہی حکم ہے کہ اگر کوئی شخص ایسی جگہ رہتا ہو جہاں برائیوں کا دور دورہ ہو اور اس کے لیے اللہ کے احکام پر عمل ممکن نہ رہے تو لازم ہے کہ اس جگہ سے ہجرت کر کے ایسی جگہ چلا جائے جہاں وہ آزادی سے اللہ تعالیٰ کی بندگی کر سکے۔ سورۂ نساء کی آیات (۹۷ تا ۱۰۰ ) میں ہجرت کی فرضیت ، اس کی فضیلت اور ہجرت نہ کرنے والوں کے بارے میں وعید بیان ہوئی ہے۔ 3۔ فَاِيَّايَ فَاعْبُدُوْنِ: اس سے معلوم ہوا کہ ہجرت کا اصل مقصد اکیلے اللہ کی عبادت ہے، روزی کمانے یا کسی اور مقصد کے لیے کسی ملک یا شہر میں چلے جانا اصل ہجرت نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَی اللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ ، فَهِجْرَتُهُ إِلی اللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ، وَمَنْ هَاجَرَ إِلٰی دُنْيَا يُصِيْبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلٰی مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ )) [بخاري، الحیل، باب في ترک الحیل....: ۶۹۵۳، عن عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ ] ’’تو جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہوئی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے اور جس نے دنیا کی کسی چیز کی طرف ہجرت کی، جسے وہ حاصل کرے یا کسی عورت کی طرف، جس سے نکاح کرے تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی۔‘‘