وَلَقَد تَّرَكْنَا مِنْهَا آيَةً بَيِّنَةً لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
البتہ ہم نے اس بستی کو بالکل عبرت کی نشانی بنا دیا (١) ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں۔ (٢)
وَ لَقَدْ تَّرَكْنَا مِنْهَا اٰيَةًبَيِّنَةً ....: کھلی نشانی سے مراد اس بستی کے وہ آثار ہیں جو اب تک باقی ہیں۔ یہ اس طرح ہوا کہ جبرائیل علیہ السلام نے ان کی بستیوں کو زمین کی تہ سے اکھاڑا اور آسمان کے بادلوں تک اٹھا کر ان پر الٹا کر دے مارا ( جس سے وہ سارا خطہ زمین کی سطح سے کافی نیچے دھنس گیا) اور ان پر تہ بہ تہ کھنگر والے پتھروں کی بارش برسائی، جو رب تعالیٰ کی طرف سے نشان والے تھے۔ یہ واقعہ نشانی اس لحاظ سے ہے کہ یہ علاقہ اس تجارتی شاہراہ پر واقع ہے جو مکہ سے شام کو جاتی ہے اور کفار مکہ اسے تجارتی سفروں میں آتے وقت اور جاتے وقت اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے تھے کہ اس حد سے گزرنے والی قوم کا انجام کیا ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کا تذکرہ سورۂ حجر (۷۶) اور سورۂ صافات (۱۳۷) میں فرمایا ہے۔