أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنكَرَ ۖ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللَّهِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ
کیا تم مردوں کے پاس بد فعلی کے لئے آتے ہو (١) اور راستے بند کرتے ہو (٢) اور اپنی عام مجلسوں میں بے حیائیوں کا کام کرتے ہو (٣) اس کے جواب میں اس کی قوم نے بجز اس کے اور کچھ نہیں کہا بس (٤) جا اگر سچا ہے تو ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کا عذاب لے آ۔
1۔ اَئِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَ تَقْطَعُوْنَ السَّبِيْلَ: قطع سبیل (راستہ کاٹنے) سے مراد عام طور پر راہ زنی و ڈاکا مارنا لیا جاتا ہے، یعنی تم لوگ مسافروں سے ان کے مال چھین کر انھیں قتل کر دیتے ہو، یا زبردستی ان کے ساتھ برائی کا ارتکاب کرتے ہو، یا زیادتی کی کوئی بھی صورت اختیار کرتے ہو جس سے لوگوں کے لیے راہ چلنا خطرناک ہو جاتا ہے۔ 2۔ وَ تَاْتُوْنَ فِيْ نَادِيْكُمُ الْمُنْكَرَ : یعنی بدکاری اور بے حیائی کے کام چھپ کر نہیں بلکہ اپنی مجلسوں میں کھلم کھلا ایک دوسرے کے سامنے کرتے ہو۔ اسی بات کو سورۂ نمل میں یوں فرمایا : ﴿ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ ﴾ [ النمل : ۵۴ ] ’’کیا تم اس طرح بدکاری کا ارتکاب کرتے ہو کہ آنکھوں سے (اسے ہوتا) دیکھ رہے ہوتے ہو۔‘‘ 3۔ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖ ....: یہاں ان کی قوم کا جواب یہ ذکر فرمایا ہے کہ انھوں نے کہا ہم پر اللہ کا عذاب لے آ، اگر تو سچوں سے ہے اور سورۂ اعراف اور سورۂ نمل میں ان کا جواب یہ ذکر فرمایا ہے کہ انھوں نے کہا انھیں اپنی بستی سے نکال دو، کیونکہ یہ لوگ بڑے پاک باز بنتے ہیں۔ اب ہو سکتا ہے کہ پہلے تو لوط علیہ السلام کے سمجھانے پر انھوں نے بستی سے نکال دینے کی دھمکی دی ہو اور پھر ان کی نصیحت سے تنگ آکر عذاب کا مطالبہ کر دیا ہو، یا ممکن ہے ترتیب اس کے برعکس ہو۔ (واللہ اعلم) یہ بات تو ظاہر ہے کہ انھوں نے لوط علیہ السلام کو یہ دونوں باتیں کیں۔