وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِي الصَّالِحِينَ
اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک کام کئے انھیں اپنے نیک بندوں میں شمار کرلوں گا۔ (١)
وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ....: یعنی اگر کسی کے والدین مشرک ہوں گے تو مومن بیٹا نیکوں کے ساتھ ہو گا، مشرک والدین کے ساتھ نہیں، اس لیے کہ گو والدین دنیا میں اس کے بہت قریب رہے اور محبت بھی کرتے رہے مگر ان کی اس سے اور اس کی ان سے محبت طبعی تھی، دینی نہ تھی، جب کہ حقیقی محبت دینی محبت ہے جو والدین کی کفار کے ساتھ تھی اور اس کی اہل ایمان کے ساتھ تھی اور قیامت کے دن آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے اسے حقیقی (دینی) محبت ہو گی۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : ’’یا رسول اللہ! آپ اس شخص کے متعلق کیا فرماتے ہیں جو کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے مگر ابھی ان سے نہیں ملا؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ )) [ بخاري، الأدب، باب علامۃ الحب في اللّٰہ....: ۶۱۶۹ ] ’’آدمی اس کے ساتھ ہو گا جس سے محبت رکھے گا۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَ مَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَ الصِّدِّيْقِيْنَ۠ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِيْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓىِٕكَ رَفِيْقًا ﴾ [ النساء : ۶۹ ] ’’اور جو اللہ اور رسول کی فرماں برداری کرے تو یہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، نبیوں اور صدیقوں اور شہداء اور صالحین میں سے اور یہ لوگ اچھے ساتھی ہیں۔‘‘ اس لیے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے صالحین میں داخل فرمائے گا جن کے ساتھ ملانے کی دعا اللہ کے جلیل القدر پیغمبر کرتے رہے، جیسا کہ سلیمان علیہ السلام نے دعا کی : ﴿ وَ اَدْخِلْنِيْ بِرَحْمَتِكَ فِيْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيْنَ ﴾ [ النمل : ۱۹ ] ’’اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما۔‘‘ اور یوسف علیہ السلام نے دعا کی : ﴿ تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ ﴾ [ یوسف : ۱۰۱ ] ’’مجھے مسلم ہونے کی حالت میں فوت کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔‘‘ ان لوگوں کو صالحین میں داخل کرنے کی اس مقام پر ایک لطیف مناسبت ہے کہ جب والدین کے شرک کا حکم دینے کی صورت میں ان کی بات نہ ماننے کا حکم دیا گیا تو ظاہر ہے اس سے والدین اور اس کے درمیان دوری اور قطع تعلق قدرتی بات ہے، اللہ تعالیٰ نے ان سے اس جدائی کے بدلے اسے صالحین میں داخل فرمایا، تاکہ اسے ان سے اُنس حاصل ہو اور اس کا دل لگا رہے۔ (ابن عاشور) اپنے عزیزوں سے جدائی کے عوض اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُنس عطا ہونے کی ایک مثال آسیہ علیھا السلام کی دعا ہے، جس نے ایمان لانے کی وجہ سے خاوند اور گھر چھن جانے پر دعا کی : ﴿ رَبِّ ابْنِ لِيْ عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ ﴾ [ التحریم : ۱۱ ] ’’اے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا دے۔‘‘ اس دعا میں ’’ عِنْدَكَ ‘‘ اور ’’ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ ‘‘ کے الفاظ قابلِ غور ہیں، فرعون کے بدلے رب تعالیٰ کی ہمسائیگی اور گھر کے بدلے جنت کا گھر، کیا خوب جزا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ماں باپ اور دوسرے خویش و اقارب کی مزاحمت کے باوجود ایمان و عمل صالح پر ثابت قدم رہنے والوں کے لیے یہ بہت بڑا انعام ہے۔