سورة العنكبوت - آیت 7

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَحْسَنَ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور جن لوگوں نے یقین کیا اور مطابق سنت کام کیے ہم ان کے تمام گناہوں کو ان سے دور کردیں گے اور انھیں نیک اعمال کے بہترین بدلے دیں گے (١)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ: یعنی جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، آزمائش پر ثابت قدم رہے، مشرکین کی ایذا سے متزلزل نہیں ہوئے، پھر صالح اعمال کرتے رہے، اپنے اور اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے جہاد کرتے رہے تو ہم ان کی برائیاں ضرور دور کر دیں گے، ایمان لانے کی برکت سے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیں گے، پھر اعمال میں سے ہجرت سے پہلے کے تمام گناہ معاف کر دیں گے اور حج سے پہلے کے تمام گناہ معاف کر دیں گے۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام داخل کیا تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا : ’’اپنا دایاں ہاتھ پھیلائیں، تاکہ میں آپ کی بیعت کروں۔‘‘ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ پھیلایا، کہتے ہیں، میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا تو آپ نے فرمایا : ’’عمرو! تمھیں کیا ہوا؟‘‘ میں نے کہا : ’’میں چاہتا ہوں کہ شرط کر لوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کس چیز کی شرط کرو گے؟‘‘ میں نے کہا : ’’اس بات کی کہ مجھے بخش دیا جائے۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلاَمَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ؟ وَأَنَّ الْهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهَا؟ وَأَنَّ الْحَجَّ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ؟ )) [مسلم، الإیمان، باب کون الإسلام یھدم ما قبلہ ....: ۱۲۱ ] ’’کیا تمھیں معلوم نہیں کہ اسلام اپنے سے پہلے جو کچھ ہوا اسے گرا دیتا ہے ؟ اور ہجرت اپنے سے پہلے جو کچھ ہوا اسے گرا دیتی ہے؟ اور حج اپنے سے پہلے جو کچھ ہوا اسے گرا دیتا ہے؟‘‘ پھر توبہ سے گزشتہ گناہ معاف ہی نہیں ہوتے بلکہ نیکیوں میں بدل دیے جاتے ہیں، تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ فرقان کی آیت (۷۰) کی تفسیر۔ اس کے علاوہ وضو، نماز، روزہ، صدقہ اور جہاد غرض ہر نیکی گناہوں کے مٹانے کا باعث بنتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ ہود کی آیت (۱۱۴)۔ وَ لَنَجْزِيَنَّهُمْ اَحْسَنَ الَّذِيْ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : اس کے دو مطلب ہیں، ایک یہ کہ آدمی کے نیک اعمال میں سے جو اعمال سب سے زیادہ اچھے ہوں گے ان کو ملحوظ رکھ کر اسے اچھی جزا دی جائے گی۔ دوسرا یہ کہ آدمی اپنے عمل کے لحاظ سے جتنی جزا کا مستحق ہو گا اس سے زیادہ اچھی جزا اسے دی جائے گی۔ کفر کی حالت میں جو نیک اعمال کیے تھے مسلمان ہونے کے بعد ان کی جزا بھی ملے گی۔ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا : ’’یا رسول اللہ! یہ بتائیں کہ وہ کام جو میں جاہلیت میں ثواب سمجھ کر کرتا تھا، یعنی صلہ رحمی، غلام آزاد کرنا اور صدقہ، تو کیا میرے لیے ان میں اجر ہے؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَسْلَمْتَ عَلٰی مَا سَلَفَ لَكَ مِنْ خَيْرٍ)) [ بخاري، البیوع، باب شراء المملوک من الحربي و ھبتہ و عتقہ : ۲۲۲۰ ] ’’تم اس تمام نیکی سمیت مسلمان ہوئے ہو جو اس سے پہلے تم نے کی۔‘‘ پھر ایمان لانے کے بعد ہر نیکی کا بدلا دس گنا سے لے کر سات سو گنا یا اس سے بھی زیادہ تک بلکہ بلا حساب دیا جائے گا۔ دیکھیے سورۂ نساء (۴۰)، انعام (۱۶۰)، قصص (۸۴)، بقرہ (۲۶۱)، زمر (۱۰) اور مومن (۴۰)۔ 3۔ رازی نے بہتر بدلے کے متعلق ایک نفیس نکتہ بیان فرمایا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ آدمی کے اعمال یا تو دل سے تعلق رکھتے ہیں، یا آنکھ سے نظر آتے ہیں، یا کان کے ساتھ سنائی دیتے ہیں، یہ اللہ کا فضل ہے کہ ان اعمال کے بدلے میں جو آنکھوں سے نظر آتے ہیں وہ نعمتیں دے گا ’’مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ‘‘ (جو کسی آنکھ نے نہیں دیکھیں) اور کان سے سنائی دینے والے اعمال کے بدلے میں وہ نعمتیں دے گا ’’وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ‘‘ (جو کسی کان نے نہیں سنیں) اور دل کے ایمان اور حسن اعتقاد کے بدلے میں وہ نعمتیں دے گا ’’ وَلَا خَطَرَ عَلٰي قَلْبِ بَشَرٍ ‘‘ (جن کا خیال تک کسی بشر کے دل میں نہیں آیا)۔ ایمان اور عمل صالح کی اس سے بہتر جزا کیا ہو سکتی ہے۔