فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ فِي زِينَتِهِ ۖ قَالَ الَّذِينَ يُرِيدُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا يَا لَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُونُ إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِيمٍ
پس قارون پوری آرائش کے ساتھ اپنی قوم کے مجمع میں نکلا (١) تو دنیاوی زندگی کے متوالے کہنے لگے (٢) کاش کہ ہمیں بھی کسی طرح وہ مل جاتا جو قارون کو دیا گیا ہے۔ یہ تو بڑا ہی قسمت کا دھنی ہے۔
1۔ فَخَرَجَ عَلٰى قَوْمِهٖ فِيْ زِيْنَتِهٖ : قارون نے مال و دولت پر اپنے کبرو غرور کے زبانی اظہار کو کافی نہیں سمجھا، بلکہ اس نے لوگوں کے سامنے اس کی نمائش کا بھی اہتمام کیا۔ ’’ فِيْ زِيْنَتِهٖ ‘‘ (اپنی زینت میں) کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ اس نے اس موقع پر اپنی دولت و حشمت کا کیا کچھ اہتمام کیا ہو گا۔ اس طرح وہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو مرعوب کرنا چاہتا تھا، تاکہ ان میں سے کچھ لوگ ٹوٹ کر اس سے آ ملیں، کیونکہ عوام کی اکثریت ایسے مظاہروں سے متاثر ہوتی ہے۔ تفاسیر میں اس کی زینت کی کچھ تفصیل بیان ہوئی ہے، مگر اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس کا تانا بانا اسرائیلی روایات ہیں، مثلاً تفسیر طبری میں ہے کہ قتادہ نے فرمایا : ’’ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہ لوگ چار ہزار سواریوں پر نکلے، ان پر اور ان کی سواریوں پر ارغوانی (شوخ گلابی) رنگ تھا۔‘‘ ابن زید نے کہا : ’’میرے والد ذکر کیا کرتے تھے کہ وہ ستر ہزار کے جلوس کے ساتھ نکلا۔‘‘ مراغی نے مقاتل کا قول نقل کیا ہے کہ وہ چتکبرے خچر پر سوار تھا، جس کی زین سونے کی تھی، ساتھ چار ہزار گھڑ سوار تھے، جنھوں نے ارغوانی لباس پہنے ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ تین سو گورے رنگ کی لڑکیاں تھیں، جو زیور اور سرخ لباس پہن کر چتکبرے خچروں پر سوار تھیں وغیرہ وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ قتادہ وہاں موجود تھے، نہ زید، نہ مقاتل اور نہ ان کے پاس وحی کے ذریعے سے یہ تفصیل آئی۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ جس شخص کے خزانوں کی چابیاں ایک قوت والی جماعت پر بھاری ہوتی تھیں اس نے اپنی دولت اور شان و شوکت کے اظہار میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہو گی۔ چنانچہ اس نے ایسا متکبرانہ انداز اختیار کیا جو اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند تھا۔ 2۔ قَالَ الَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا ....: وہ لوگ جن کی زندگی کا مقصد ہی دنیا اور اس کی زیب و زینت کا حصول ہے، قارون کی شان و شوکت دیکھ کر کہنے لگے، کاش! ہمیں بھی یہ سب کچھ ملا ہوتا جو قارون کو دیا گیا ہے، یقیناً وہ بہت بڑے نصیب والا ہے۔ یہ لوگ بنی اسرائیل کے عوام بھی ہو سکتے ہیں، کیونکہ دنیوی خوش حالی کی خواہش ہر دل میں موجود ہے اور فرعون کی قوم کے لوگ بھی۔ ان لوگوں کی اس تمنا کی مثالیں اب بھی ہمیں ہر جگہ نظر آتی ہیں۔ مردوں کو دیکھو یا عورتوں کو، جوانوں کو دیکھو یا بوڑھوں کو، ہر ایک دنیوی ترقی کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ ہر ایک نے کوئی نہ کوئی تمنا پال رکھی ہے کہ کاش! میرا مکان فلاں جیسا ہو، میری سواری فلاں جیسی ہو، میرا کاروبار فلاں جیسا ہو، پھر اس تمنا کے حصول کے لیے نہ اسے حلال کی پروا ہے نہ حرام کی۔ قرآن نے یہ مثالیں صرف داستان طرازی کے لیے بیان نہیں فرمائیں، بلکہ یہ سب کچھ ہمیں ایسے رویے کے بد انجام سے آگاہ کرنے کے لیے بیان فرمایا ہے۔