سورة النمل - آیت 38

قَالَ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

آپ نے فرمایا اے سردارو! تم میں سے کوئی ہے جو ان کے مسلمان ہو کر پہنچنے سے پہلے ہی اس کا تخت مجھے لا دے (١)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قَالَ يٰاَيُّهَا الْمَلَؤُا اَيُّكُمْ يَاْتِيْنِيْ بِعَرْشِهَا ....: آیات کے سیاق سے یہ بات سمجھ میں آ رہی ہے کہ جب قاصد ملکہ سبا کے پاس پہنچا اور اس نے سلیمان علیہ السلام کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا اور ان کا پیغام پہنچایا تو وہ سمجھ گئی کہ وہ ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی، چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خود آپ کے ہاں حاضر ہو کر آپ کے ساتھ گفت و شنید کرے۔ چنانچہ وہ اپنے لشکر اور سرداروں کے ساتھ روانہ ہوئی، ابھی وہ راستے میں تھی اور پہنچا ہی چاہتی تھی کہ سلیمان علیہ السلام نے اپنے سرداروں کو مخاطب کرکے فرمایا : ’’تم میں سے کون ہے جو اس کا تخت میرے پاس اس سے پہلے لے آئے کہ وہ تابع فرمان ہو کر میرے پاس آئیں۔‘‘ سلیمان علیہ السلام کا مقصد اس سے یہ تھا کہ جب وہ یہاں پہنچ کر اپنے تخت کو موجود پائے تو اسے معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو کیسی غیر معمولی قوتیں عطا فرماتا ہے، تاکہ اسے یقین ہو جائے کہ میں واقعی اللہ کا نبی ہوں اور اس کی عقل کا بھی امتحان ہو جائے کہ کچھ تبدیلی کے بعد وہ اپنا تخت پہچانتی ہے یا نہیں۔ بعض مفسرین نے سلیمان علیہ السلام کے ملکہ کا تخت منگوانے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ وہ اس کے پہنچنے سے پہلے اس کے تخت پر قبضہ کر لینا چاہتے تھے، کیونکہ جب وہ پہنچ کر اسلام قبول کر لے گی تو اس کے مال پر قبضہ جائز نہ ہو گا۔ مگر یہ بات سراسر غلط ہے، کیونکہ سلیمان علیہ السلام کے پاس تو ہر چیز ملکہ سے کہیں بہتر اور بڑھ کر موجود تھی اور کسی شخص کے مسلمان ہونے کی امید پر اس کی مدد کے بجائے پہلے ہی اس کے اموال پر قبضہ جمانے کی فکر کرنا ایک نبی تو دُور خلفائے اسلام کی شان کے لائق بھی نہیں۔ ویسے بھی پہلی امتوں کے لیے مال غنیمت حلال نہیں تھا۔