يَا مُوسَىٰ إِنَّهُ أَنَا اللَّهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
موسٰی! سن بات یہ ہے کہ میں ہی اللہ ہوں غالب (١) با حکمت۔
يٰمُوْسٰى اِنَّهٗ اَنَا اللّٰهُ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ: دیکھیے سورۂ طٰہٰ(۱۴) یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے اپنی دو صفات بیان فرمائیں، ایک ’’عزيز‘‘ اور دوسری ’’حكيم‘‘ ۔ کیونکہ موسیٰ علیہ السلام کو جو عظیم ذمہ داری دی جانے والی تھی اس کے لیے انھیں یہ اطمینان دلانا ضروری تھا کہ فرعون کو دعوت دیتے وقت اس کی شان و شوکت یا قوت و عظمت سے مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ انھیں بھیجنے والا اللہ ہے جو سب پر غالب ہے اور جو کمال حکمت والا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے گھر پرورش دلانے، پھر دس سال بکریاں چروانے اور اندھیری رات میں صحرا میں راستہ بھلا کر اچانک نبوت اور معجزے عطا کرکے فرعون کی طرف بھیجنے میں اس کی بے شمار حکمتیں ہیں۔