إِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِأَهْلِهِ إِنِّي آنَسْتُ نَارًا سَآتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ آتِيكُم بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ
(یاد ہوگا) جبکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ میں نے آگ دیکھی ہے، میں وہاں سے یا تو کوئی خبر لے کر یا آگ کا کوئی سلگتا ہوا انگارا لے کر ابھی تمہارے پاس آجاؤں گا تاکہ تم سینک تاپ کرلو (١)
اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِاَهْلِهٖ اِنِّيْ اٰنَسْتُ نَارًا: ’’تَصْطَلُوْنَ‘‘ ’’صَلِيَ يَصْلٰي‘‘ (ع) سے باب افتعال ہے۔ اصل میں ’’تَصْتَلِيُوْنَ‘‘ تھا، تاء کو طاء سے بدل دیا اور یاء حذف ہو گئی۔ ’’شِهَابٌ‘‘ شعلہ یا انگارا۔ ’’ قَبَسٍ ‘‘ (کسی آگ سے) سلگایا ہوا۔ ان آیات کی تفسیر سورۂ اعراف میں اور سورۂ طٰہٰ کی ابتدا میں گزر چکی ہے، یہاں صرف اس مقام سے متعلق چند باتیں ذکر ہوں گی۔ ’’ اِذْ ‘‘ سے پہلے ’’اُذْكُرْ‘‘ محذوف ہے، یعنی اس وقت کو یاد کر جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا۔ اس کی طرح تجھے بھی کسی پیشگی علم یا توقع کے بغیر وحی عطا کی گئی ہے۔ (دیکھیے قصص : ۸۶) اور اس کے بعد ذکر کردہ انبیاء اور ان کی اقوام کے قصوں میں تیرے اور تیری قوم کے لیے بہت سا علم و حکمت کا سامان موجود ہے۔