كَذَّبَتْ عَادٌ الْمُرْسَلِينَ
عادیوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا (١)
1۔ كَذَّبَتْ عَادٌ المُرْسَلِيْنَ....: نوح علیہ السلام اور ان کے بعد چاروں انبیاء علیھم السلام کے قصوں میں خاص طور پر تقویٰ اور اطاعت کے حکم اور تبلیغ رسالت پر کسی قسم کے بدلے کی نفی سے ظاہر ہوتا ہے کہ انبیاء کی بعثت کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی توحید اور اس کے رسولوں کی اطاعت کا حکم دینا ہے اور یہ کہ انبیاء علیھم السلام دنیاوی طمع سے پاک ہوتے ہیں۔ 2۔ اس قصے کی اور نوح علیہ السلام کے قصے کی ابتدائی آیات ایک جیسی ہیں، اس لیے ان کی تفسیر دہرانے کی ضرورت نہیں۔ تقابل کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۶۵ تا ۷۲) اور ہود (۵۰ تا ۶۰) مزید تفصیلات ان مقامات پر بھی ہیں، سورۂ حٰم السجدہ (۱۳ تا ۱۶)، احقاف (۲۱ تا ۲۶)، ذاریات (۴۱ تا ۴۵)، قمر (۱۸ تا ۲۲) اور سورۂ فجر (۶ تا ۸) قومِ عاد کا مسکن حضر موت کے قریب اس جگہ تھا جسے اب ’’الربع الخالی‘‘ کہا جاتا ہے۔ دیکھیے سورۂ اعراف (۶۵)۔ 3۔ اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ هُوْدٌ....: ہود علیہ السلام کی تقریر سمجھنے کے لیے اس قوم کے متعلق وہ بنیادی معلومات نگاہ میں رہنا ضروری ہیں جو قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مذکور ہیں۔ ان کے مطابق قوم نوح کی تباہی کے بعد اس قوم کو عروج عطا ہوا۔ (اعراف : ۶۹) جسمانی لحاظ سے یہ لوگ بڑے تنو مند اور زور آور تھے۔ (اعراف : ۶۹۔ حاقہ : ۷) اس قوم جیسی کوئی قوم پیدا نہیں کی گئی۔ (فجر : ۸) وہ نہایت ترقی یافتہ تھے، اونچے اونچے ستونوں والی بلند و بالا عمارتیں بنانے کی وجہ سے ان کی شہرت ہی ’’ستونوں والے‘‘ کے نام سے تھی۔ (فجر : ۶، ۷) مادی ترقی اور جسمانی قوت کی وجہ سے وہ سخت متکبر تھے اور کسی کو اپنے سے طاقتور نہیں مانتے تھے۔ (حٰم السجدہ : ۱۵) ان کا سیاسی نظام بڑے بڑے سرکش جباروں کے ہاتھ میں تھا۔ (ہود : ۵۹) مذہبی لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے منکر نہیں تھے بلکہ مشرک تھے، ایک اللہ کو معبود ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ (اعراف : ۷۰)