وَالَّذِي أَطْمَعُ أَن يَغْفِرَ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ
اور جس سے امید بندھی ہوئی ہے کہ وہ روز جزا میں میرے گناہوں کو بخش دے گا (١)
وَ الَّذِيْ اَطْمَعُ اَنْ يَّغْفِرَ لِيْ خَطِيْٓـَٔتِيْ يَوْمَ الدِّيْنِ : یعنی قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ عدالت قائم فرمائے گا تو وہاں کسی کی عدالت، حاکمیت یا سلطنت نہیں ہو گی، نہ اس کے فیصلوں میں کسی کا کوئی دخل ہو گا، نہ اس کے سوا کوئی کسی کے گناہ معاف کر سکے گا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ مَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ﴾ [ آل عمران : ۱۳۵ ]’’اور اللہ کے سوا اور کون گناہ بخشتا ہے؟‘‘ چونکہ میں اس کا موحد بندہ ہوں، میں نے اس کے ساتھ شرک نہیں کیا، اس لیے میں اس سے امید رکھتا ہوں کہ اس دن وہ میری خطائیں معاف فرمائے گا۔ اس میں ابراہیم علیہ السلام کی تواضع اور ان کا انکسار بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کی بے پروائی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی امید کا اظہار کیا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام نے یہ صفات اس لیے بیان فرمائیں کہ مشرکین کو مطمئن کر سکیں کہ عبادت صرف اس ’’رب العالمین‘‘ کا حق ہے جو ان صفات کا مالک ہے۔ دوسرے معبود جو نہ پیدا کر سکیں، نہ رہنمائی کر سکیں، نہ کھانے کو دے سکیں، نہ پینے کو، نہ شفا کے مالک ہوں، نہ موت و حیات کے، نہ قیامت برپا کر سکتے ہوں، نہ عدالت قائم کر سکتے ہوں، وہ عبادت کے حق دار کیسے ہو سکتے ہیں؟