فَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنِ اضْرِب بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ ۖ فَانفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ
ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ دریا پر اپنی لاٹھی مارو (١) پس اس وقت دریا پھٹ گیا اور ہر ایک حصہ پانی کا مثل بڑے پہاڑ کے ہوگیا۔ (٢)
فَاَوْحَيْنَا اِلٰى مُوْسٰى اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ....: بعض لوگ جو معجزات کے منکر ہیں فرعون اور اس کی قوم کے سمندر میں غرق ہونے کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ جب بنی اسرائیل سمند رکے کنارے پہنچے تو اس وقت سمندر میں جزر کی کیفیت تھی، پانی پیچھے ہٹ گیا تھا، چنانچہ وہ بخیریت اس سے گزر گئے، ان کے پیچھے فرعون اور اس کی قوم بھی سمندر میں داخل ہو گئی۔ جب وہ پوری طرح اس کے اندر داخل ہو گئے تو سمندر میں ’’مد‘‘ کی کیفیت پیدا ہو گئی، پانی یک لخت چڑھ آیا اور وہ سب غرق ہو گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تاویل نہیں بلکہ قرآن کا صاف انکار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے اس موقع پر موسیٰ علیہ السلام کو وحی کی کہ اپنا عصا سمندر پر مار، چنانچہ سمندر پھٹ گیا اور پانی کا ہر ٹکڑا ایک بہت بڑے، لمبے چوڑے اور اونچے پہاڑ کی صورت میں تھم گیا۔ سورۂ طٰہٰ میں ہے کہ ان کے درمیان (سمندر کی تہ کی گیلی اور دلدلی زمین میں) خشک راستہ بن گیا، فرمایا : ﴿ فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيْقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا ﴾ [ طٰہٰ : ۷۷ ] ’’پس ان کے لیے سمندر میں ایک خشک راستہ بنا۔‘‘ غور کریں کہاں مد و جزر سے سمندر کا بڑھنا گھٹنا اور کہاں پانی کا اپنی سطح ہموار رکھنے کے بجائے بہت بڑے پہاڑوں کی صورت میں تھم جانا۔ دراصل ان لوگوں کا ایمان ہی نہیں کہ جس مالک نے آگ میں جلانے کی اور پانی میں بہنے اور ڈبونے کی خاصیت رکھی ہے، وہ جب چاہے ان سے یہ خاصیت واپس بھی لے سکتا ہے۔ یہ لوگ اندھے بہرے مادے ہی کو اپنا معبود بنائے بیٹھے ہیں، جو اپنے آپ پر بھی کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ یہاں ’’فَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ‘‘ کے بجائے ’’ فَاَوْحَيْنَا اِلٰى مُوْسٰى ‘‘ میں موسیٰ علیہ السلام کا نام اپنے رب پر اعتماد کے صلے میں ان کی عظمت شان کے اظہار کے لیے ہے۔