فَأَخْرَجْنَاهُم مِّن جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ
بالآخر ہم نے انھیں باغات سے اور چشموں سے۔
فَاَخْرَجْنٰهُمْ مِّنْ جَنّٰتٍ وَّ عُيُوْنٍ....: چند ہی دنوں میں فرعون نے بنی اسرائیل کے تعاقب کے لیے ایک لشکر جرار تیار کر لیا۔ اس کے نزدیک تو یہ کام نہایت عقل مندی کا تھا کہ اس نے پورے ملک سے اپنی ساری قوت اکٹھی کرلی، تاکہ بنی اسرائیل کو زبردستی دوبارہ اپنی غلامی میں واپس لے آئے، یا انھیں دنیا سے مٹا دے، مگر اللہ تعالیٰ کی تدبیر غالب ہے۔ اس نے فرعون کی چال اسی پر پلٹ دی، اس کی سلطنت کے بڑے بڑے ستون پورے ملک سے اکٹھے ہو گئے، تمام فوجیں بھی یکجا ہو گئیں اور ایک ہی وقت میں سمندر میں غرق کر دی گئیں۔ اگر وہ بنی اسرائیل کے لیے فوجیں جمع نہ کرتا تو زیادہ سے زیادہ ایک قوم اس کے ہاتھ سے نکل جاتی، مگر اس کی سلطنت اور عیش و عشرت کے اسباب باقی رہتے۔ اب اس کی تدبیر کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ خود، اس کی افواج اور اس کے امراء و وزراء، جو اس کی سلطنت کا خلاصہ تھے، سب سمندر میں غرق ہو گئے۔ یہ اس قادر و مختار کا کام تھا کہ ایک طرف اس نے فرعون کو، اس کی پوری قوت کو اور اس کی قوم کے سرداروں کو ان کے باغوں، چشموں، خزانوں اور عالی شان مقامات سے نکالا اور سمندر میں لا کر غرق کر دیا اور دوسری طرف بنی اسرائیل کو خیریت کے ساتھ مصر سے نکال کر آزادی سے ہمکنار کر دیا۔