إِنَّ هَٰؤُلَاءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِيلُونَ
کہ یقیناً یہ گروہ بہت ہی کم تعداد میں ہے (١)
اِنَّ هٰؤُلَآءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِيْلُوْنَ : ’’شِرْ ذِمَةٌ ‘‘ چھوٹا سا گروہ، اس نے انھیں مزید حقیر اور بے وقعت بتانے کے لیے ’’ قَلِيْلُوْنَ ‘‘ کے ساتھ تاکید کی، جو جمع قلت کا صیغہ ہے۔ ’’ هٰؤُلَآءِ ‘‘ کے ساتھ اشارہ بھی حقارت کے اظہار کے لیے ہے کہ یہ لوگ ایک چھوٹی سی جماعت اور تھوڑے سے لوگ ہیں، ہمیں ان کی کیا پروا ہے، ہم آسانی سے انھیں نیست و نابود کر سکتے ہیں اور چاہیں تو معمولی وسائل کے ساتھ انھیں واپس لا سکتے ہیں۔ ان الفاظ کے ساتھ وہ اپنے آپ کو اور اپنی قوم کو دلیری دے رہا تھا، جب کہ اس سے اس کا سخت خوف زدہ ہونا ظاہر ہو رہا تھا کہ اگر واقعی وہ اتنے ہی قلیل اور بے وقعت ہیں تو تمھیں اتنی فوجیں اکٹھی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہاں مفسرین نے بائبل سے متاثر ہو کر لکھا ہے کہ اس وقت بنی اسرائیل کی تعداد بچوں اور بوڑھوں کے علاوہ چھ لاکھ تھی، مگر یہ بات عقلاً ممکن ہی نہیں۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے انھیں مبالغہ قرار دیا ہے۔ جوانوں کی اتنی بڑی تعداد اگر موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوتی تو وہ کبھی ہجرت کا راستہ اختیار نہ کرتے اور چھ لاکھ کو ’’لَشِرْذِمَةٌ قَلِيْلُوْنَ ‘‘ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ مفسر مراغی لکھتے ہیں : ’’جو بات یقین سے کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل فرعون کے لشکر سے بہت کم تھے، لیکن ہم کسی معین عدد کا یقین نہیں کر سکتے، تورات اور تاریخ کی کتابوں میں جو مبالغہ آمیز باتیں ہیں ان کی تصدیق بہت مشکل ہے، ان پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے، ہمارے لیے بہتر ہے کہ ان کی تفاصیل میں نہ پڑیں۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ کے مقدمہ میں ان روایات کو باطل قرار دیا ہے اور ان میں موجود غلو کی وضاحت کی ہے، جسے نہ عقل قبول کرتی ہے اور نہ صحیح علمی بحث کے سامنے وہ قائم رہ سکتی ہیں۔‘‘