سورة الفرقان - آیت 68

وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کردیا ہو وہ بجز حق کے قتل نہیں کرتے (١) نہ وہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں (٢) اور جو کوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لائے گا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ الَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ : یہ عباد الرحمن کی صفات کی ایک اور قسم ہے، یعنی ان برائیوں اور کمینگیوں سے پاک ہونا جو مشرکین میں پائی جاتی ہیں اور عباد الرحمان ایمان کی وجہ سے ان سے محفوظ رہتے ہیں۔ یہاں ان کے تین بڑی برائیوں سے بچے رہنے کا ذکر فرمایا، یعنی شرک، قتل ناحق اور زنا۔ اگرچہ کبیرہ گناہ اور بھی بہت سے ہیں، مگر عرب کے معاشرے میں اس وقت زیادہ تسلط انھی تین گناہوں کا تھا، اس لیے مسلمانوں کی اس خصوصیت کو نمایاں کیا گیا، اس سے مشرکین پر چوٹ بھی مقصود ہے کہ وہ اتنی نمایاں برائیوں میں مبتلا ہیں جن کی برائی ہر عقل سلیم پر واضح ہے۔ وَ لَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ : مراد ہر انسانی جان ہے، کیونکہ کسی بھی انسانی جان کا قتل اللہ نے حرام کیا ہے۔ اِلَّا بِالْحَقِّ: جیسے جان کے بدلے جان، شادی شدہ زانی کا رجم، مرتد کو قتل کرنا، جنگ میں کافر کو قتل کرنا اور مسلم یا غیر مسلم محارب کو قتل کرنا، یہ سب صورتیں ’’ اِلَّا بِالْحَقِّ ‘‘ کے تحت آتی ہیں۔ یہ تینوں گناہ اسی ترتیب کے ساتھ ایک حدیث میں بھی مذکور ہیں، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا : ’’کون سا گناہ سب بڑا ہے؟‘‘ فرمایا : ’’یہ کہ تم کسی کو اللہ کا شریک قرار دو، حالانکہ اسی نے تمھیں پیدا فرمایا۔‘‘ سائل نے کہا : ’’پھر کون سا؟‘‘ فرمایا : ’’یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس اندیشے سے قتل کر دو کہ وہ تمھارے ساتھ کھانے میں شریک ہو گی۔‘‘ اس نے کہا : ’’پھر کون سا؟‘‘ فرمایا : ’’یہ کہ تم اپنے ہمسائے کی بیوی کی رضا سے اس کے ساتھ زنا کرو۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت اتار دی: ﴿وَ الَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ﴾ [الفرقان : ۶۸ )) [ بخاری، الأدب، باب قتل الولد....: ۶۰۰۱ ] وَ مَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا : ’’ اَثَامًا ‘‘ ’’إِثْمٌ‘‘ میں الف کے اضافے سے معنی میں اضافہ ہو گیا، ’’سخت گناہ۔‘‘ اس کا معنی گناہ کی جزا بھی آتا ہے، یعنی سخت گناہ کی سزا پائے گا۔ ابن کثیر میں ہے کہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما نے فرمایا : ’’اثام جہنم میں ایک وادی ہے۔‘‘ دکتور حکمت بن بشیر نے فرمایا : ’’اسے طبری نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔‘‘