وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَٰنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَٰنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُورًا ۩
ان سے جب بھی کہا جاتا ہے کہ رحمان کو سجدہ کرو تو جواب دیتے ہیں رحمان ہے کیا ؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کا تو ہمیں حکم دے رہا ہے اور اس (تبلیغ) نے ان کی نفرت میں مزید اضافہ کردیا (١)
وَ اِذَا قِيْلَ لَهُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ....: اس آیت کی دو تفسیریں ہیں، ایک یہ کہ مشرکین مکہ زمین و آسمان کے خالق کے لیے ’’اللہ‘‘ کا لفظ تو مانتے تھے، لیکن وہ اس کے نام ’’رحمان‘‘ سے مانوس نہ تھے، اس لیے اسے سنتے ہی چڑ جاتے تھے۔ دیکھیے سورۂ رعد (۳۰) اور بنی اسرائیل (۱۱۰) دوسری تفسیر اس کی یہ ہے کہ وہ لوگ یہ بات کہ ’’رحمان چیز کیا ہے‘‘ محض کافرانہ شوخی اور سراسر ہٹ دھرمی کی بنا پر کہتے تھے، جس طرح فرعون نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا: ﴿وَ مَا رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ﴾ [الشعراء : ۲۳ ] ’’اور رب العالمین کیا چیز ہے؟‘‘ حالانکہ نہ کفار مکہ اس بے حد رحم والی ہستی سے بے خبر تھے اور نہ فرعون رب العالمین سے نا واقف تھا، جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اسے برملا کہا تھا: ﴿لَقَدْ عَلِمْتَ مَا اَنْزَلَ هٰؤُلَآءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ بَصَآىِٕرَ﴾ [بنی إسرائیل : ۱۰۲ ] ’’بلاشبہ یقیناً تو جان چکا ہے کہ انھیں آسمانوں اور زمین کے رب کے سوا کسی نے نہیں اتارا، اس حال میں کہ واضح دلائل ہیں۔‘‘