وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِهِ ۚ وَكَفَىٰ بِهِ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيرًا
اس ہمیشہ زندہ رہنے والے اللہ تعالیٰ پر توکل کریں جسے کبھی موت نہیں اور اس کی تعریف کے ساتھ پاکیزگی بیان کرتے رہیں، وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے کافی خبردار ہے۔
1۔ وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِيْ لَا يَمُوْتُ : یہ بتانے کے بعد کہ تمام کفار آپ کی دشمنی میں یک جان اور ایک دوسرے کے مددگار ہیں، ان کی دشمنی اور ایذا سے بچنے کا طریقہ بتایا کہ آپ ان کی دشمنی پر صبر کریں، نہ کسی کا خوف رکھیں نہ کسی سے امید، اپنے ہر کام میں اس پر بھروسا رکھیں جو ہمیشہ زندہ ہے، کبھی نہیں مرے گا، وہی آپ کی ہر طرح سے حفاظت فرمائے گا، جیسا کہ فرمایا: ﴿يٰاَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ وَ اللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ﴾ [المائدۃ : ۶۷ ] ’’اے رسول! پہنچا دے جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اگر تو نے نہ کیا تو تُو نے اس کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا۔‘‘ بعض اہلِ علم نے فرمایا، اس کے بعد کسی عاقل کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی بھی مخلوق پر بھروسا کرے، کیونکہ مخلوق کو مرنا ہے۔ یاد رہے، توکل کا معنی یہ نہیں کہ اسباب کو ترک کر دیا جائے، بلکہ توکل کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حسب استطاعت تمام اسباب اختیار کرنے کے بعد بھروسا صرف اللہ پر رکھا جائے۔ 2۔ اس جملے میں اللہ تعالیٰ کی دو صفات ’’الْحَيِّ‘‘اور ’’الَّذِيْ لَا يَمُوْتُ‘‘کے ساتھ مشرکین پر چوٹ بھی ہے کہ وہ ان ہستیوں کی عبادت کرتے اور انھیں اپنا داتا و دستگیر مانتے ہیں جو نہ زندہ ہیں اور نہ موت سے محفوظ، جیسا کہ فرمایا: ﴿وَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَيْـًٔا وَّ هُمْ يُخْلَقُوْنَ (20) اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَآءٍ وَ مَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ﴾ [النحل : ۲۰، ۲۱ ] ’’اور وہ لوگ جنھیں وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرتے اور وہ خودپیدا کیے جاتے ہیں۔ مردے ہیں، زندہ نہیں ہیں اور وہ نہیں جانتے کب اٹھائے جائیں گے۔‘‘ 3۔ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِهٖ : تسبیح سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہر ایسی چیز کی نفی ہے جو اس کی شان کے لائق نہ ہو، جس میں سب سے پہلی چیز اس کا کوئی شریک ہونا ہے اور حمد سے مراد اس کے لیے ہر خوبی ثابت کرنا ہے جو اس کی شان کے لائق ہے۔ یعنی اللہ پر توکل کے ساتھ اس کی تسبیح و تحمید آپ کو ہر دشمن سے محفوظ رکھے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جو بھی حکم دیا ہے وہ آپ کے ساتھ پوری امت کے لیے بھی ہے، جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ وہ آپ کے ساتھ خاص ہے۔ 4۔ وَ كَفٰى بِهٖ بِذُنُوْبِ عِبَادِهٖ خَبِيْرًا : اس میں دو عموم ہیں، تمام بندے اور ان کے تمام گناہ اور ’’ خَبِيْرَا ‘‘ میں مبالغے کی وجہ سے ’’علم‘‘ کا بھی عموم ہے اور ’’كَفٰى‘‘کے فاعل کی تاکید’’باء‘‘کے ساتھ کرنے میں کفایت میں بھی عموم ہے، یعنی وہ اپنے تمام بندوں کے تمام گناہوں کی پوری پوری خبر رکھنے والا ہونے کے لحاظ سے ہر طرح کافی ہے، کیونکہ اس سے کوئی چیز مخفی نہیں۔ دیکھیے سورۂ انعام (۵۹) اور سورۂ سبا (۳)۔ 5۔ اس جملے میں کفار کے لیے وعید اور دھمکی بھی ہے، جیسے کوئی بڑا اپنے ماتحت کو کہے کہ تم جو کچھ کر رہے ہو میں دیکھ رہا ہوں۔