وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُهُمْ وَلَا يَضُرُّهُمْ ۗ وَكَانَ الْكَافِرُ عَلَىٰ رَبِّهِ ظَهِيرًا
یہ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہیں جو نہ تو انھیں کوئی نفع دے سکیں نہ کوئی نقصان پہنچا سکیں، اور کافر تو ہے ہی اپنے رب کے خلاف (شیطان کی) مدد کرنے والا۔
1۔ وَ يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنْفَعُهُمْ وَ لَا يَضُرُّهُمْ....: انسان کو کسی کی عبادت اور خود سپردگی پر آمادہ کرنے والی چیز اس سے فائدے کی امید ہوتی ہے یا نقصان کا خوف۔ اللہ تعالیٰ نے انسان پر اپنے انعامات اور عاد و ثمود اور دوسری قوموں کو دی جانے والی سزائیں شمار کرنے کے بعد کفار کی بے عقلی بیان فرمائی کہ وہ اس محسن کو چھوڑ کر جس نے انھیں پانی کی ایک بوند سے پیدا فرما کر ضرورت کی ہر چیز اور ہر نعمت عطا فرمائی ہے، ان بے حقیقت چیزوں کی پوجا کر رہے ہیں جو نہ انھیں کوئی فائدہ پہنچاتی ہیں اور نہ نقصان۔ ’’ يَعْبُدُوْنَ ‘‘ مضارع کا صیغہ (جو استمرار کے لیے ہے) ان کے حال پر تعجب کے لیے ذکر فرمایا کہ یہ نہیں کہ انھوں نے ایک آدھ دفعہ یہ کمینگی کی ہو، بلکہ کرتے ہی چلے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے سوا تمام ہستیوں کے نفع و نقصان کے مالک ہونے کی اور عبادت کا حق دار ہونے کی نفی بار بار فرمائی ہے۔ دیکھیے سورۂ مائدہ (۷۶)، اعراف (۱۸۸)، یونس (۱۸، ۴۹)، رعد (۱۶)، فرقان (۳)، یٰس (۷۵)، فتح (۱۱) اور سورۂ جن (۲۱)۔ 2۔ وَ كَانَ الْكَافِرُ عَلٰى رَبِّهٖ ظَهِيْرًا : ’’ الْكَافِرُ ‘‘ میں الف لام جنس کا ہے یا استغراق کا، اور ’’ كَانَ ‘‘ استمرار اور ہمیشگی کے لیے ہے، یعنی ہر کافر کی عادت ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اس کے دشمنوں کی مدد کرتا ہے، خواہ وہ شیاطین الجن ہوں یا شیاطین الانس۔ اس کی دلی، زبانی، مالی اور جانی ساری توانائیاں اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت اور کفر اور کافروں کی حمایت کے لیے وقف ہوتی ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْا اَوْلِيَآءَ الشَّيْطٰنِ اِنَّ كَيْدَ الشَّيْطٰنِ كَانَ ضَعِيْفًا﴾ [النساء : ۷۶ ] ’’وہ لوگ جو ایمان لائے وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا وہ باطل معبود کے راستے میں لڑتے ہیں۔ پس تم شیطان کے دوستوں سے لڑو، بے شک شیطان کی چال ہمیشہ نہایت کمزور رہی ہے۔‘‘ ’’عَلٰى رَبِّهٖ ‘‘ میں کافر کی نمک حرامی نمایاں فرمائی ہے کہ اسے سوچنا چاہیے کہ وہ کس کے خلاف مورچہ باندھے ہوئے ہے، کیا اپنے پرورش کرنے والے ہی کے خلاف؟