وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ۗ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا
وہ جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اسے نسب والا اور سسرالی رشتوں والا کردیا (١) بلاشبہ آپ کا پروردگار (ہر چیز پر) قادر ہے۔
1۔ وَ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا....: یہ توحید کے دلائل کی پانچویں قسم ہے۔ اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کی قدرت کاملہ اور آدمی پر انعام تینوں کا ذکر ہے۔ ’’ بَشَرًا ‘‘ کا لفظ ’’اَلْبَشَرَةُ‘‘ (کھال، ظاہری جلد) سے ہے، دوسرے تمام جانوروں کا جسم بالوں سے یا پروں وغیرہ سے چھپا ہوتا ہے، جبکہ انسان کی جلد اس سے صاف ہوتی ہے، اس لیے اسے ’’بشر‘‘ کہا جاتا ہے۔ پچھلی آیت میں خالق و مالک اور تنہا معبود ہونے کی دلیل کے طور پر دو پانیوں کو ملنے سے روکنے کی قدرت کا ذکر تھا اور اس آیت میں انھیں ملانے کا ذکر ہے، فرمایا: ﴿اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ﴾ [الدھر : ۲ ] ’’بلاشبہ ہم نے انسان کو ایک ملے جلے قطرے سے پیدا کیا۔‘‘ تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ کائنات میں سب کچھ خود بخود ہر چیز کی طبیعت کے تقاضے سے ہو رہا ہے۔ نہیں! یہ اس زبردست مالک و مختار کا کام ہے، چاہتا ہے تو سمندروں کو ملنے سے روک دیتا ہے، چاہتا ہے تو قطرے کو باہم ملا دیتا ہے اور پانی پر صورت گری اور نقش آفرینی فرما دیتا ہے۔ 2۔ فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّ صِهْرًا : یعنی یہی کرشمہ بجائے خود کیا کم تھا کہ وہ ایک حقیر قطرے سے انسان جیسی حیرت انگیز مخلوق بنا دیتا ہے، اس پر مزید یہ کہ اس نے انسان کا ایک نمونہ ہی نہیں، دو الگ الگ نمونے (عورت اور مرد) بنا دیے، فرمایا: ﴿فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَ الْاُنْثٰى﴾ [القیامۃ : ۳۹ ] ’’پھر اس نے اس سے دو قسمیں نر اور مادہ بنائیں۔‘‘ پھر وہ مذکر ہو یا مؤنث، ان سب کی نسبت باپ دادا کی طرف ہوتی ہے، فلاں بن فلاں اور فلانہ بنت فلاں۔ جب مرد اور عورت کی آپس میں شادی ہوتی ہے تو ان کے بہت سے سسرالی رشتے دار بن جاتے ہیں، خاندانی قبیلوں اور قوموں کا یہ سارا پھیلاؤ ایک قطرۂ منی سے وجود میں آتا ہے۔ دیکھیے سورۂ نساء کی پہلی آیت اور سورۂ حجرات (۱۳)۔ 3۔ وَ كَانَ رَبُّكَ قَدِيْرًا : یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کرشمے ہیں، کیونکہ تیرا رب ہمیشہ سے بے حد قدرت والا ہے ۔ہمیشگی کا مفہوم ’’ كَانَ ‘‘ سے ظاہر ہو رہا ہے۔