وَلَقَدْ صَرَّفْنَاهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوا فَأَبَىٰ أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا
اور بیشک ہم نے اسے ان کے درمیان طرح طرح سے بیان کیا تاکہ (١) وہ نصیحت حاصل کریں، مگر پھر بھی اکثر لوگوں نے سوائے ناشکری کے مانا نہیں۔ (٢)
1۔ وَ لَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَيْنَهُمْ....: اس آیت کی دو تفسیریں ہیں اور دونوں درست ہیں۔ اگر’’ صَرَّفْنٰهُ ‘‘ میں ’’هٗ ‘‘ کی ضمیر اوپر بیان کردہ دلائل کی طرف ہو، جیسا کہ اکثر مفسرین کا رجحان ہے، تو معنی یہ ہو گا کہ ہم نے توحید کے دلائل کو قرآن مجید میں مختلف طریقوں سے پھیر پھیر کر بیان کیا ہے، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں، مگر اکثر لوگوں نے توحید قبول نہیں کی اور انھوں نے ناشکری اور کفر کے سوا کچھ مانا ہی نہیں۔ اور اگر ’’ صَرَّفْنٰهُ ‘‘ کی ضمیر ’’مَآءً ‘‘ کی طرف ہو تو معنی یہ ہو گا کہ ہم نے اس پانی کو ان کے درمیان طرح طرح سے پھیرا ہے، چنانچہ وہ کہیں زیادہ برستا ہے کہیں کم۔ سب جگہ ایک جیسا اور ایک وقت میں نہیں برستا، کسی جگہ بارش سے سیلاب آ جاتا ہے تو دوسری جگہ بارش کا ایک قطرہ نہیں گرتا اور قحط پڑ جاتا ہے، کہیں وہ مائع صورت میں ہے، کہیں پتھر کی طرح برف کی صورت میں اور کہیں بخارات کی صورت میں۔ غرض یہ سب اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی قدرت کے کرشمے ہیں۔ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنھم نے فرمایا: ((مَا مِنْ عَامٍ أَمْطَرَ مِنْ عَامٍ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ يَصْرِفُهُ حَيْثُ يَشَاءُ ثُمَّ قَرَأَ: ﴿وَ لَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوْا﴾)) [ مستدرک حاکم :2؍403، ح : ۳۵۲۰۔ طبري : ۲۱۲۱۶۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ:5؍ 460، ح : ۲۴۶۱ ] ’’یعنی کوئی سال ایسا نہیں جس میں دوسرے کسی سال سے زیادہ بارش ہوتی ہو، لیکن اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا ہے اسے پھیرتا ہے۔‘‘ پھر یہ آیت پڑھی: ﴿وَ لَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوْا﴾ [الفرقان : ۵۰ ]’’اور بلاشبہ یقیناً ہم نے اسے ان کے درمیان پھیر پھیر کر بھیجا، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔‘‘ دکتور حکمت بن بشیر نے اس حدیث کی تخریج کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول ابن ابی حاتم نے صحیح سند کے ساتھ سعید بن جبیر کے واسطے سے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسی سند کے ساتھ روایت کرکے اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول طبری اور بیہقی نے دو سندوں سے روایت کیا ہے اور امام بیہقی نے اسے صحیح کہا ہے۔ [ السنن الکبریٰ للبیہقي : 3؍363] ان دو جلیل القدر صحابہ کے قول کی رو سے یہ تفسیر زیادہ صحیح ہے، کیونکہ ظاہر ہے کہ یہ بات وہ اپنے پاس سے نہیں کہہ سکتے، اس لیے یہ حکماً مرفوع ہے۔ ابن عاشور لکھتے ہیں : ’’جدید تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ بارش زمین پر ہر سال مجموعی طور پر ایک جیسی ہوتی ہے اور یہی بات سیکڑوں برس پہلے وحی کے ذریعے سے بتا دی گئی تھی۔‘‘ 2۔ لِيَذَّكَّرُوْا: یعنی بارش کو اس طرح پھیر پھیر کر مختلف جگہوں پر کم یا زیادہ نازل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں، بارش کو محض اللہ تعالیٰ کی رحمت و فضل کا نتیجہ مانیں، اس کے برسنے پر اللہ کا شکر ادا کریں اور نہ برسنے پر توبہ و استغفار کریں۔ 3۔ فَاَبٰى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا: ’’ كُفُوْرًا ‘‘ اور ’’ كُفْرٌ‘‘ دونوں مصدر ہیں، ’’ كُفُوْرًا ‘‘ میں حرف زیادہ ہونے کی وجہ سے مبالغہ ہے، یعنی سخت ناشکری۔ ناشکری یہ کہ اس بارش کو ستاروں کا کرشمہ قرار دیا جائے۔ زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حدیبیہ میں ایک بارش کے بعد، جو رات کے وقت ہوئی تھی، صبح کی نماز پڑھائی، جب فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ((هَلْ تَدْرُوْنَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ قَالُوا اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، قَالَ : قَالَ أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِيْ مُؤْمِنٌ بِيْ وَ كَافِرٌ، فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ رَحْمَتِهِ، فَذٰلِكَ مُؤْمِنٌ بِيْ وَكَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ، وَ أَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِنَوْءِ كَذَا وَ كَذَا، فَذٰلِكَ كَافِرٌ بِيْ وَ مُؤْمِنٌ بِالْكَوْكَبِ )) [ مسلم، الإیمان، باب بیان کفر من قال مطرنا بالنوء : ۷۱۔ بخاري : ۸۴۶] ’’جانتے ہو آج رات تمھارے رب نے کیا فرمایا ہے؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔‘‘ کہا، اس نے فرمایا ہے : ’’آج میرے بندوں نے صبح کی ہے کہ کچھ مجھ پر ایمان رکھنے والے ہیں اور کچھ کفر کرنے والے ہیں۔ جس نے کہا، ہم پر اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی ہے، تو یہ مجھ پر ایمان رکھنے والا اور ستارے کے ساتھ کفر کرنے والا ہے اور جس نے کہا، ہم پر فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی تو یہ ستارے پر ایمان رکھنے والا اور میرے ساتھ کفر کرنے والا ہے۔‘‘