سورة الفرقان - آیت 38

وَعَادًا وَثَمُودَ وَأَصْحَابَ الرَّسِّ وَقُرُونًا بَيْنَ ذَٰلِكَ كَثِيرًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور عادیوں اور ثمودیوں اور کنوئیں والوں کو (١) اور ان کے درمیان کی بہت سی امتوں کو (٢) (ہلاک کردیا)۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ وَ اَصْحٰبَ الرَّسِّ : نوح علیہ السلام سب سے پہلے نبی ہیں جن کی امت انھیں جھٹلانے کی وجہ سے غرق ہوئی اور موسیٰ علیہ السلام آخری نبی ہیں جن پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے فرعون اور اس کی آل غرق ہوئی۔ اس آیت میں ان کے درمیان کے لوگوں کا ذکر ہے جو پانی کے سوا ہلاک کیے گئے۔ ’’الرَّسِّ‘‘ کا معنی کنواں اور جمع ’’رِسَاسٌ‘‘ہے۔ ابن جریر نے فرمایا :’’کلامِ عرب میں ’’الرَّسِّ‘‘ہر کھودی ہوئی جگہ کو کہتے ہیں، مثلاً کنواں اور قبر وغیرہ۔‘‘ اس لیے بعض نے اس سے مراد ’’اصحاب الاخدود‘‘ بھی لیے ہیں۔ شنقیطی نے فرمایا : ’’عاد و ثمود کا قصہ قرآن کی متعدد آیات میں آیا ہے، رہے ’’اَصْحٰبَ الرَّسِّ ‘‘ تو قرآن میں نہ ان کے قصے کی تفصیل آئی ہے نہ ان کے نبی کا نام آیا ہے۔‘‘ ان کے متعلق مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں جو سب بے دلیل ہیں، اس لیے ہم نے انھیں ذکر نہیں کیا۔ ’’ الرَّسِّ ‘‘ ایک وادی کا نام بھی ہے، جس کا زہیر نے اپنے مُعَلَّقہ میں ذکر کیا ہے: بَكَرْنَ بُكُوْرًا وَاسْتَحَرْنَ بِسُحْرَةٍ فَهُنَّ لِوَادِي الرَّسِّ كَالْيَدِ لِلْفَمِ وَ قُرُوْنًۢا بَيْنَ ذٰلِكَ كَثِيْرًا:’’ قَرْنٌ‘‘ ایک زمانے کے لوگ جو ایک دوسرے سے ملتے رہے ہوں، ’’فَهُوَ مِنَ الْاِقْتِرَانِ‘‘ ’’بَيْنَ ذٰلِكَ ‘‘ (اس کے درمیان) سے مراد نوح اور موسیٰ علیھما السلام کے درمیان کا یا عاد و ثمود اور اصحاب الرس کے درمیان کا زمانہ ہے۔ دوسری جگہ ان کی کثرت کے متعلق فرمایا: ﴿اَلَمْ يَاْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ وَ الَّذِيْنَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ لَا يَعْلَمُهُمْ اِلَّا اللّٰهُ﴾ [إبراہیم : ۹ ] ’’کیا تمھارے پاس ان لوگوں کی خبر نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، نوح کی قوم کی (خبر) اور عاد اور ثمود کی اور ان کی جو ان کے بعد تھے، جنھیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْۢ بَعْدِ نُوْحٍ﴾ [بني إسرائیل : ۱۷ ] ’’اور ہم نے نوح کے بعد کتنے ہی زمانوں کے لوگ ہلاک کر دیے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ بائبل وغیرہ کے حوالے سے نوح اور موسیٰ علیھما السلام کے درمیان آباء کی گنتی اور سالوں کی گنتی کا کچھ اعتبار نہیں، نہ دنیا کی مدت کا کوئی یقینی علم ہے۔ سائنسدانوں کی باتیں بھی محض ظن و تخمین پر مبنی ہیں۔