فَقُلْنَا اذْهَبَا إِلَى الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَدَمَّرْنَاهُمْ تَدْمِيرًا
اور کہہ دیا کہ تم دونوں ان لوگوں کی طرف جاؤ جو ہماری آیتوں کو جھٹلا رہے ہیں۔ پھر ہم نے انھیں بالکل ہی پامال کردیا۔
1۔ فَقُلْنَا اذْهَبَا اِلَى الْقَوْمِ....: اس سے پہلی آیت اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے قصے کی ابتدا کا ذکر فرمایا، پھر سارا طویل قصہ حذف کرکے ان دونوں کے قصے کی انتہا کا ذکر فرما دیا، کیونکہ یہاں مقصود اتنی بات ہی تھی، یہ اختصار کا کمال ہے۔ 2۔ اِلَى الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا: ان آیات سے مراد یا تو وہ معجزے ہیں جو موسیٰ علیہ السلام لے کر آئے تھے، یا ایک اللہ کی عبادت، موسیٰ علیہ السلام کی نبوت تسلیم کرنے اور بنی اسرائیل کو آزادی دینے کے احکام ہیں، جو اللہ کی طرف سے موسیٰ علیہ السلام لے کر فرعون کے پاس گئے تھے۔ رسول بھیجنے سے پہلے ہی انھیں آیات جھٹلانے والے اس لیے قرار دیا کہ اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ انھوں نے آیات کو جھٹلا دینا ہے، یا اس لیے کہ قرآن کے مخاطب لوگوں کو معلوم تھا کہ فرعون نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا تھا۔ ان کے علم کے اعتبار سے ’’ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا ‘‘ فرما دیا۔ 3۔ فَدَمَّرْنٰهُمْ تَدْمِيْرًا:’’ تَدْمِيْرًا ‘‘ کسی چیز کو اس طرح توڑنا کہ پھر درست نہ ہو سکے۔ (المراغی) مزید وضاحت کے لیے دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۱۶)۔