وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا
اور رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا (١)
وَ قَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا....: اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے یہ شکایت دنیا میں کی، کیونکہ کفار نے کہا تھا: ﴿لَا تَسْمَعُوْا لِهٰذَا الْقُرْاٰنِ وَ الْغَوْا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ﴾ [حٰمٓ السجدۃ : ۲۶ ] ’’اس قرآن کو مت سنو اور اس میں شور کرو، تاکہ تم غالب رہو۔‘‘ اور دوسرا یہ کہ قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ شکایت کریں گے، کیونکہ قرآن مجید میں یقینی مستقبل کے لیے ماضی کا لفظ کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ ’’میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑا ہوا بنا رکھا تھا‘‘ کے الفاظ سے جان بوجھ کر اسے نظر انداز کرنے کا مفہوم واضح ہو رہا ہے، جو صرف ’’چھوڑ رکھا تھا‘‘ کے الفاظ سے واضح نہیں ہوتا۔ ’’هٰذَا الْقُرْاٰنَ‘‘میں’’هٰذَا ‘‘کے لفظ سے قرآن کی عظمت بیان کرنا مقصود ہے، یعنی انھوں نے اتنی عظمت والے قرآن کو اس طرح بنا رکھا تھا جیسے کوئی ایسی چیز ہو جسے جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا جائے۔ رہا یہ سوال کہ آیت میں مذکور ’’میری قوم‘‘سے مراد کیا ہے؟ تو جواب اس کا یہ ہے کہ ’’میری قوم‘‘ کے لفظ سے سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں قرآن پر ایمان نہ لانے والے مراد ہیں، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے لے کر قیامت تک آنے والے وہ تمام لوگ مراد ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لائے، کیونکہ وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امتِ دعوت اور آپ کی قوم ہیں، جیسا کہ نوح علیہ السلام کی امت تھی، جو ایمان نہ لانے کے باوجود ان کی امت اور ان کی قوم تھی۔ ان کے قرآن کو چھوڑنے سے مراد اسے سننے، پڑھنے، اس پر غور و فکر کرنے سے اجتناب اور اس پر ایمان نہ لانا ہے۔ اس کے بعد ’’ قَوْمِي ‘‘ میں وہ تمام ایمان لانے والے بھی شامل ہیں جنھوں نے کسی طرح بھی قرآن کو چھوڑا۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’قرآن کو سننے سے گریز، اس میں شور ڈالنا اور اس پر ایمان نہ لانا، اسے چھوڑنا ہے۔ اسی طرح بقدر ضرورت اس کا علم حاصل نہ کرنا اور اسے حفظ نہ کرنا بھی اسے چھوڑنا ہے۔ اس کا مطلب سمجھنے کی کوشش نہ کرنا، اس کے اوامر پر عمل نہ کرنا اور اس کی منع کردہ چیزوں سے باز نہ آنا بھی اسے چھوڑنا ہے۔ اسے چھوڑ کر دوسری چیزوں کو اختیار کرنا بھی اسے چھوڑنا ہے، مثلاً گانے بجانے کو، عشقیہ اشعار کو، لوگوں کے اقوال و آراء کو اور ان کے بنائے ہوئے طریقوں کو قرآن پر ترجیح دینا اسے چھوڑنا ہے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت امتِ مسلمہ نے جس طرح جان بوجھ کر قرآن کو پسِ پشت پھینک رکھا ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہ پھینکا ہو۔ ان کے اکثر لوگ دنیا کمانے کے لیے اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان، تاجر اور صنعت کار بنائیں گے اور اس کام کے لیے اپنی ساری توانائیاں صرف کریں گے، مگر انھیں قرآن کی تعلیم نہیں دلوائیں گے اور دلوائیں گے بھی تو صرف ناظرہ قرآن کی یا حفظ کی، جس سے انھیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ کتنا ستم ہے کہ دنیا کی کوئی زبان سیکھی جائے تو اس کا ایک لفظ بھی مطلب سمجھے بغیر نہیں پڑھا جاتا، جب کہ قرآن پورا ناظرہ پڑھ لیا جاتا ہے، بعض اوقات حفظ کر لیا جاتا ہے، اس سے آگے اس کی تجوید اور حسن قراء ت بھی حاصل کر لی جاتی ہے، مگر اس کا مطلب سمجھنے کی زحمت ہی نہیں کی جاتی۔ جب اس کا مطلب ہی نہیں سمجھا گیا، تو اس پر غور و فکر کا اور اس پر عمل کا مرحلہ کب آئے گا؟ پورا قرآن تو دور کی بات ہے روزانہ پانچ وقت جو نماز وہ پڑھتے ہیں انھیں اس کا مطلب معلوم نہیں، نہ وہ یہ جانتے ہیں کہ ہم اپنے مالک سے کلام کرتے ہوئے کیا عرض کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے تمام ممالک میں (إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّيْ) قرآن کو مسلمانوں کی زندگی سے عملاً نکال باہر کر دیا گیا ہے۔ ان کی سیاست کفار سے لی ہوئی جمہوریت ہے، جس میں اللہ اور اس کے رسول کا کوئی دخل نہیں، یا قرآن و سنت کے احکام کی پابندی سے آزاد استبدادی ملوکیت ہے، ان کی تجارت و صنعت کا دار و مدار سود پر ہے، ان کی عدالتوں میں کفار کے قوانین رائج ہیں اور ان کی وضع قطع اور تمدن و تہذیب یہود و نصاریٰ اور ہندوؤں کی سی ہے۔ ان کے ہاں قرآن صرف برکت کے لیے ہے، یا مجلس کے افتتاح کے لیے، یا دم درود اور پیری مریدی میں خود ساختہ وظائف کے لیے، یا محبت و عداوت اور تسخیر قلوب کے عملیات کے لیے، یا اچھے سے اچھے کاغذ اور اچھی جلد والا خرید کر جہیز میں دینے کے لیے ہے، یا خوبصورت غلاف میں لپیٹ کر اونچی سے اونچی جگہ رکھنے کے لیے۔ وہ اس کی طرف پیٹھ نہیں کرتے، مگر بات اس کی ایک نہیں مانتے۔ ان کے دینی مدارس میں سالہا سال تک انسانوں کے مرتب کیے ہوئے مسائل پڑھائے جاتے ہیں، جب وہ دل و دماغ میں خوب راسخ ہو جاتے ہیں تو انھیں قرآن و حدیث سے دورے کی شکل میں سال دو سال میں فارغ کر دیا جاتا ہے۔ (الا ما رحم ربی) حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہم قرآن کو چھوڑنے کی یہ روش ترک کرکے صحابہ و تابعین کی طرح قرآن کی طرف واپس نہیں آئیں گے، اسے اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا نہیں بنائیں گے، نصرتِ الٰہی اور باعزت زندگی سے محروم ہی رہیں گے۔ سچ فرمایا امام مالک رحمہ اللہ نے : ’’ لَنْ يَّصْلُحَ آخِرُ هٰذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا بِمَا صَلُحَ بِهِ أَوَّلُهَا‘‘ [ شرح سنن أبي داؤد لعبد المحسن العباد :2؍334] ’’اس امت کا آخر بھی اسی کے ساتھ درست ہو گا جس کے ساتھ اس کا اول درست ہوا تھا۔‘‘