أَصْحَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌ مُّسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا
البتہ اس دن جنتیوں کا ٹھکانا بہتر ہوگا اور خواب گاہ بھی عمدہ ہوگی (١)
1۔ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ يَوْمَىِٕذٍ خَيْرٌ مُّسْتَقَرًّا....: جہنمیوں کے ذکر کے ساتھ اہلِ جنت کا ذکر فرمایا کہ وہ اس دن کفار سے ٹھکانے کے اعتبار سے نہایت بہتر اور آرام گاہ کے اعتبار سے کہیں اچھے ہوں گے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ قیامت کے دن کفار کے لیے تو خیر کا وجود ہی نہیں ہو گا، پھر اہلِ جنت کا ٹھکانے اور آرام گاہ میں ان سے بہتر ہونے کا کیا مطلب ؟ جواب یہ ہے کہ دنیا میں کفار کو جو عیش و آرام میسر تھا اہلِ جنت اس دن اس سے کہیں اچھے ٹھکانے اور آرام گاہ میں ہوں گے، یا یہ بات جہنمیوں پر طنز کے طور پر کہی گئی ہے۔ 2۔ اَحْسَنُ مَقِيْلًا : اصل میں’’ مَقِيْلًا‘‘کے لفظی معنی ہیں ’’قیلولہ کرنے کی جگہ‘‘اور قیلولہ گرمی میں دوپہر کے آرام کو کہتے ہیں۔ اس آیت کی تفسیر میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ((لَا يَنْتَصِفُ النَّهَارُ مِنْ يَوْمِ الْقِيَامَةِ حَتّٰی يَقِيْلَ هٰؤُلَاءِ وَ هٰؤُلَاءِ ثُمَّ قَرَأَ: ﴿اِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَاۡاِلَى الْجَحِيْمِ ﴾ )) [ مستدرک حاکم :2؍402، ح : ۳۵۱۶، صححہ الحاکم و وافقہ الذھبي ] ’’قیامت کے دن ابھی دوپہر نہ ہوئی ہو گی کہ یہ لوگ اور وہ لوگ دوپہر کا آرام کر رہے ہوں گے، پھر (کفار کے متعلق) یہ آیت پڑھی : ﴿اِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَاۡاِلَى الْجَحِيْمِ﴾ [الصافات : ۶۸ ] ’’بلاشبہ ان کی واپسی یقیناً اسی بھڑکتی ہوئی آگ کی طرف ہو گی۔‘‘