فَقَدْ كَذَّبُوكُم بِمَا تَقُولُونَ فَمَا تَسْتَطِيعُونَ صَرْفًا وَلَا نَصْرًا ۚ وَمَن يَظْلِم مِّنكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِيرًا
تو انہوں نے تمہیں تمہاری تمام باتوں میں جھٹلایا، اب نہ تو تم عذابوں کے پھیرنے کی طاقت ہے، نہ مدد کرنے کی (١) تم میں سے جس نے ظلم کیا ہے ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں گے۔
1۔ فَقَدْ كَذَّبُوْكُمْ بِمَا تَقُوْلُوْنَ : یہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے جو وہ مشرکین سے مخاطب ہو کر فرمائے گا کہ تم نے جنھیں معبود بنا رکھا تھا انھوں نے تو تمھیں تمھاری بات میں جھٹلا دیا اور تم سے بری ہو گئے۔ قیامت کے دن تمام خود ساختہ معبودوں کا اپنے پوجنے والوں سے بری ہونا اور ان کا دشمن بن جانا قرآن میں متعدد مقامات پر آیا ہے، دیکھیے سورۂ یونس (۲۸)، نحل (۸۶)، مریم (۸۲)، فاطر (۱۳، ۱۴) اور احقاف (۶)۔ 2۔ فَمَا تَسْتَطِيْعُوْنَ۠ صَرْفًا وَّ لَا نَصْرًا: یعنی جن سے تم مدد کی توقع رکھتے تھے وہ تمھارے دشمن بن گئے، تو اب تم عذاب سے کسی طرح نہیں بچ سکتے، نہ اسے اپنے آپ سے کسی سفارش یا فدیے سے ہٹا سکتے ہو اور نہ ہی خود یا کوئی اور تمھاری مدد کو آ سکتا ہے۔ 3۔ وَ مَنْ يَّظْلِمْ مِّنْكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِيْرًا : ظلم سے مراد شرک ہے، دیکھیے سورۂ انعام کی آیت (۸۲): ﴿اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ يَلْبِسُوْا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ ﴾ کی تفسیر اور عذابِ کبیر سے مراد جہنم ہے۔ مطلب یہ کہ تم سب نے ظلم کا ارتکاب کیا، اس لیے ہم تمھیں جہنم کا عذاب چکھائیں گے، یعنی جہنم میں پھینکنے کی وجہ بیان فرمائی ہے۔