سورة النور - آیت 45

وَاللَّهُ خَلَقَ كُلَّ دَابَّةٍ مِّن مَّاءٍ ۖ فَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَىٰ بَطْنِهِ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَىٰ رِجْلَيْنِ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَىٰ أَرْبَعٍ ۚ يَخْلُقُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

تمام کے تمام چلنے پھرنے والے جانداروں کو اللہ تعالیٰ ہی نے پانی سے پیدا کیا ان میں سے بعض تو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں (١) بعض دو پاؤں پر چلتے ہیں (٢) بعض چارپاؤں پر (٣)، اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے (٤) بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اللّٰهُ خَلَقَ كُلَّ دَآبَّةٍ مِّنْ مَّآءٍ....: اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ انبیاء کی آیت (۳۰) یہ اس مقام پر توحید کی چوتھی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چلنے والا (جان دار) پانی سے پیدا فرمایا، پھر ایک ہی چیز سے پیدا ہونے والے تمام جان دار زندگی کی پہلی حالت ہی میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں، کوئی اپنے پیٹ پر چلتا ہے جیسے سانپ، مچھلی اور بعض قسم کے کیڑے مکوڑے، کوئی دو پاؤں پر چلتا ہے جیسے انسان اور پرندے اور کوئی چار پاؤں پر چلتا ہے جیسے گائے، بھینس، گھوڑے اور دوسرے چوپائے اور درندے۔ يَخْلُقُ اللّٰهُ مَا يَشَآءُ : یعنی کسی جانور کو چاہے تو اس سے زیادہ پاؤں دے دیتا ہے، جیسے کنکھجورا، کیکڑا، مکڑی اور کئی قسم کے کیڑے اور سمندری مخلوق۔ یہ کائنات میں پھیلے ہوئے نور ہدایت ہی کا اظہار ہے، جسے دیکھ کر سعادت مند لوگ اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لے آتے ہیں اور اس پر بھی کہ جب اللہ تعالیٰ جو چاہے پیدا فرما سکتا ہے، تو وہ قیامت کے روز دوبارہ زندہ بھی کرے گا۔ چلنے میں جانوروں کی ترتیب بھی قابل توجہ ہے، سب سے پہلے وہ جس کے پاؤں ہی نہیں، ان کے چلنے میں قدرت کا اظہار سب سے زیادہ ہے، پھر دو پاؤں پر چلنا چار پاؤں پر چلنے سے عجیب ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ: یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ جو چاہے پیدا کر سکتا ہے، کیونکہ وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔