وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں سے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہوجائے، اے مسلمانوں! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ نجات پاؤ (١)
1۔ وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ....: عورتوں کو بھی اسی طرح اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھنے اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے کا حکم فرمایا جیسے مردوں کو یہ حکم دیا، مگر عورتوں پر مردوں کو نہ دیکھنے کی اتنی سختی نہیں جتنی مردوں پر عورتوں کے دیکھنے کے بارے میں ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں : ’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ اپنی چادر کے ساتھ مجھے پردے میں لیے ہو ئے تھے اور میں حبشیوں کو دیکھ رہی تھی، وہ (برچھوں کے ساتھ) کھیل رہے تھے، یہاں تک کہ میں ہی اکتا جاتی، تو ایک نو عمر لڑکی کا اندازہ کر لو جو کھیل دیکھنے کی شوقین ہو۔‘‘ [ بخاري، النکاح، باب نظر المرأۃ إلی الحبش....: ۵۲۳۶ ] یعنی اندازہ لگا لو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے کتنی دیر کھڑے رہے ہوں گے۔ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنھا کو ان کے خاوند نے تیسری طلاق دے دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں فرمایا : ’’ام شریک کے گھر رہ کر عدت گزارو۔‘‘ پھر فرمایا : ’’اس عورت کے پاس میرے صحابہ کثرت سے آتے ہیں (کیونکہ وہ مال دار اور بہت مہمان نواز خاتون تھی)، اس لیے تم ابن ام مکتوم کے گھر عدت گزارو، کیونکہ وہ نابینا آدمی ہے، تم اپنے کپڑے بھی نیچے رکھ سکو گی۔‘‘ [ مسلم، الطلاق، باب المطلقۃ البائن لا نفقۃ لھا : 38؍1480] ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اگر شہوانی خیال نہ ہو تو عورتیں مردوں کو دیکھ سکتی ہیں۔ پردے کا حکم عورتوں کو ہے، تاکہ مرد انھیں نہ دیکھیں، مردوں کو نہیں کہ عورتیں انھیں نہ دیکھیں۔ البتہ اگر شہوت کے ساتھ ہو تو عورتوں کو بھی مردوں کی طرف دیکھنا حرام ہے، جیسا کہ آیت سے ظاہر ہے۔ 2۔ سنن ابی داؤد اور بعض دوسری کتب احادیث میں ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس میمونہ رضی اللہ عنھا بھی تھیں تو ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آئے اور یہ واقعہ ہمیں حجاب کا حکم ہونے کے بعد کا ہے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس سے حجاب کرو۔‘‘ ہم نے کہا : ’’یا رسول اللہ! کیا یہ نابینا نہیں کہ نہ ہمیں دیکھتا ہے، نہ ہمیں پہچانتا ہے؟‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَ فَعَمْيَاوَانِ أَنْتُمَا؟ أَلَسْتُمَا تُبْصِرَانِهِ ! )) [ أبوداؤد، اللباس، باب في قولہ عزوجل : ﴿و قل للمؤمنات ....﴾ : ۴۱۱۲ ] ’’تو کیا تم بھی اندھی ہو؟ کیا تم اسے نہیں دیکھتیں!‘‘ اس حدیث سے عورتوں کا آنکھوں والے مردوں کو ہی نہیں نابینا مردوں کو دیکھنا بھی منع ثابت ہوتا ہے، مگر امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اس کی توجیہ یہ فرمائی ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کی خصوصیت ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنھا کو ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے گھر عدت گزارنے کا حکم دیا تھا۔ ہمارے ایک شیخ اس کی یہ توجیہ فرماتے تھے کہ نابینا آدمی اپنے ستر کا خیال نہیں رکھ سکتا، نہ اسے اپنا ستر کھلنے کا پتا چل سکتا ہے، اس لیے اس سے حجاب کا حکم دیا، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت ثابت ہی نہیں، چنانچہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف کہا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اس میں ایک راوی نبہان مولیٰ ام سلمہ ہے، اسے تقریب میں ’’مقبول‘‘ کہا گیا ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب کے مقدمہ میں خود فرمایا ہے کہ جس راوی کے متعلق وہ مقبول کہیں، اگر کسی حدیث میں اس کی متابعت ہو تو وہ مقبول ہے، ورنہ ’’لین الحدیث‘‘ ہے۔ اس لیے یہ روایت ضعیف ہے۔ [ ہدایۃ المستنیر بتخریج ابن کثیر ] 3۔ وَ لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا : چونکہ مردوں کے لیے عورتوں سے بڑا فتنہ کوئی نہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَا تَرَكْتُ بَعْدِيْ فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ)) [بخاري، النکاح، باب ما یتقي من شؤم المرأۃ.....: ۵۰۹۶، عن أسامۃ بن زید رضی اللّٰہ عنھما ] ’’میں نے اپنے بعد مردوں پر کوئی فتنہ عورتوں سے زیادہ نقصان پہنچانے والا نہیں چھوڑا۔‘‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کے علاوہ اپنی زینت چھپانے کا بھی حکم دیا، چنانچہ فرمایا کہ مومن عورتوں سے کہہ دے کہ (ان کے ایمان کا تقاضا ہے کہ) اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں سے ظاہر ہو جائے۔ زینت کا معنی جمال اور حسن ہے۔ یہ دو قسم کی ہے، ایک فطری حسن و جمال اور دوسری جو بناؤ سنگار، زیبائش و آرائش اور زیور وغیرہ سے حاصل ہوتی ہے۔ لباس بھی زینت ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ﴾ [الأعراف : ۳۱ ] ’’ہر نماز کے وقت اپنی زینت لے لو۔‘‘ اس میں زینت کا معنی لباس ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ عورتیں اپنی کوئی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو خود ظاہر ہو جائے، یعنی انھیں اپنے بدن اور اس کے بناؤ سنگار میں سے کوئی چیز ظاہر کرنا جائز نہیں مگر وہ کپڑے جنھیں چھپایا جا ہی نہیں سکتا، یا وہ زینت جو کسی کام یا حرکت کی وجہ سے بے اختیار ظاہر ہو جائے۔ ’’الصحيح المسبور من التفسير بالمأثور‘‘ میں ہے : ’’طبری نے صحیح اسانید کے ساتھ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا : ’’ ﴿ وَ لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا﴾ قَالَ هِيَ الثِّيَابُ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے کہ ’’وہ اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں سے ظاہر ہو جائے‘‘ اس سے مراد کپڑے ہیں۔‘‘ حاکم نے اسے روایت کیا اور اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ (مستدرک حاکم : ۲؍۳۹۷، ح : ۳۴۹۹) اور طبرانی (۹۱۱۶) نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ ہیثمی نے مجمع الزوائد (۷؍۸۲) میں فرمایا : ’’طبرانی نے اسے کئی اسانید کے ساتھ مطول اور مختصر روایت کیا ہے، جن میں سے ایک سند کے راوی صحیحین (بخاری و مسلم) کے راوی ہیں۔‘‘ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ‘‘ سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں، بلکہ انھوں نے اس کے ساتھ بالیاں، کنگن، انگوٹھی، سرمہ اور منہدی بھی شامل کر دی ہے اور یہ کہا ہے کہ عورتوں کا چہرہ اور ہتھیلیاں مع زیور و آرائش وہ زینت ہے جو عورتوں کے لیے اپنوں اور بیگانوں سب کے سامنے ظاہر کرنا جائز ہے۔ یہ لوگ دلیل کے طور پر ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول پیش کرتے ہیں کہ ’’ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ‘‘ سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ یہ لوگ نہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول پورا پیش کرتے ہیں اور نہ پردے کے متعلق ان کے دوسرے اقوال پیش نظر رکھتے ہیں۔ چہرے کے پردے کے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنھما کا موقف طبری نے مشہور حسن سند (علی بن ابی طلحہ عن ابن عباس) کے ساتھ بیان کیا ہے، لطف یہ ہے کہ ’’ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ‘‘ کی تفسیر جو چہرے کے پردے کے منکر ابن عباس رضی اللہ عنھما سے نا مکمل بیان کرتے ہیں، وہ بھی اسی سند کے ساتھ مروی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ۠ ذٰلِكَ اَدْنٰى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا﴾ [الأحزاب : ۵۹ ] (اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے آپ پر لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انھیں تکلیف نہ پہنچائی جائے اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ((أَمَرَ اللّٰهُ نِسَاءَ الْمُؤْمِنِيْنَ إِذَا خَرَجْنَ مِنْ بُيُوْتِهِنَّ فِيْ حَاجَةٍ أَنْ يُّغَطِّيْنَ وُجُوْهَهُنَّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِنَّ بِالْجَلَابِيْبِ وَ يُبْدِيْنَ عَيْنًا وَاحِدَةً )) [ طبري :۲۸۸۸۰]’’اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کے لیے گھروں سے باہر نکلیں تو اپنے چہروں کو اپنے سروں کے اوپر سے بڑی چادروں کے ساتھ ڈھانپ لیں اور ایک آنکھ کھلی رکھیں۔‘‘ ایسا شخص جو گھر سے باہر نکلتے ہوئے مومن عورتوں کے لیے صرف ایک آنکھ کھلی رکھنے کو اللہ کا حکم قرار دیتا ہے وہ عورتوں کے لیے چہرے اور ہاتھوں کو اپنوں اور بیگانوں کے سامنے کھلا رکھنے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ابن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ عنھم کے موقف میں کوئی اختلاف نہیں۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ’’ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ‘‘ کی تفسیر اجنبیوں کے اعتبار سے فرمائی ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنھما نے ’’ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ‘‘ کی تفسیر اپنے لوگوں کے اعتبار سے فرمائی ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ ہے کہ اجنبیوں کے سامنے ظاہری کپڑوں کے سوا کوئی زینت ظاہر نہ کریں اور ابن عباس رضی اللہ عنھما کا مطلب یہ ہے کہ ’’زینت ظاہرہ‘‘ (چہرہ اور ہاتھ) خاوند کے علاوہ اپنے محرموں کے سامنے بھی ظاہر کر سکتی ہیں، جس میں سرمہ، منہدی، بالیاں، کنگن، ہار سب کچھ شامل ہے۔ ان محرموں کا بیان آگے فرما دیا: ﴿وَ لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوْبِهِنَّ وَ لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآىِٕهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآىِٕهِنَّ۠ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآىِٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ﴾ [النور : ۳۱ ] البتہ زینت باطنہ (پیٹ، سینہ، ران اور مخفی حصے) صرف خاوند کے سامنے ظاہر کر سکتی ہیں۔ اب آپ ابن عباس رضی اللہ عنھما کی ’’ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ‘‘ کی مکمل تفسیر پڑھیں، جس کا صرف شروع کا حصہ بیان کیا جاتا ہے۔ طبری نے (علی بن ابی طلحہ عن ابن عباس سے) حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ آیت: ﴿وَ لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ﴾ کے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا: ((وَالزِّيْنَةُ الظَّاهِرَةُ : الْوَجْهُ وَ كُحْلُ الْعَيْنِ وَ خِضَابُ الْكَفِّ وَ الْخَاتَمُ، فَهٰذِهِ تَظْهَرُ فِيْ بَيْتِهَا لِمَنْ دَخَلَ مِنَ النَّاسِ عَلَيْهَا )) [ طبري : ۲۶۱۷۰ ]’’زینت ظاہرہ سے مراد چہرہ، آنکھ کا سرمہ، ہتھیلی کی منہدی اور انگوٹھی ہے، چنانچہ وہ یہ چیزیں اپنے گھر میں ان لوگوں کے سامنے ظاہر کر سکتی ہے جو اس کے پاس اندر آتے ہیں۔‘‘ ابن عباس رضی اللہ عنھما پر اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا کہ وہ یہ زینت گھر کے اندر اپنے لوگوں کے سامنے ظاہر کرنے کی بات کر رہے ہیں اور یہ حضرات سرمہ و منہدی، گلے کے ہار اور کنگن اور انگوٹھی سمیت چہرے اور ہتھیلیوں کو اپنوں اور بیگانوں سب کے سامنے کھلا رکھنے کو ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول قرار دے رہے ہیں۔ [ فَیَا لِلْعَجَبِ وَلِضَیْعَۃِ الْأَدَبِ ] 4۔ اب قرآن مجید اور احادیث و آثار سے چہرے کے پردے کے چند دلائل بیان کیے جاتے ہیں : (1) سب سے پہلے زیر تفسیر آیت ہی کو دیکھیں، اس میں ’’ وَ لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ‘‘ کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَ لْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوْبِهِنَّ ﴾ ’’اور اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں‘‘ گریبان پر پہلے ہی قمیص کا کپڑا موجود ہوتا ہے، اس کے باوجود اس پر اوڑھنی کا حکم دیا ہے، اب چہرے کے پردے کے منکر خود ہی غور فرمائیں کہ عورت کے حسن و جمال کے اصل مرکز چہرے کو مع سرمہ و زیور تو کھلا رکھنے کی اجازت دے دی گئی جو مرد کے لیے سراسر فتنہ ہے اور سینہ جس پر قمیص بھی تھی اسے مزید اوڑھنی کے ساتھ ڈھانکنے کا حکم دیا گیا۔ (2) طبری نے اپنی حسن سند کے ساتھ علی بن ابی طلحہ کے طریق سے ابن عباس رضی اللہ عنھما کا ایک قول نقل کیا ہے جو اللہ کے فرمان ’’ اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ ‘‘ کے متعلق ہے، ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں: ((فَهٰذَا الرَّجُلُ يَتْبَعُ الْقَوْمَ وَهُوَ مُغَفَّلٌ فِيْ عَقْلِهِ لَا يَكْتَرِثُ لِلنِّسَاءِ وَلَا يَشْتَهِيْهِنَّ فَالزِّيْنَةُ الَّتِيْ تُبْدِيْهَا لِهٰؤُلَاءِ قُرْطَاهَا وَ قِلَادَتُهَا وَ سِوَارُهَا وَ أَمَّا خَلْخَالُهَا وَ مِعْضَدَاهَا وَ نَحْرُهَا وَ شَعْرُهَا فَإِنَّهَا لَا تُبْدِيْهِ إِلَّا لِزَوْجِهَا )) [ طبري : ۲۶۱۹۴ ] ’’تو یہ وہ آدمی ہے جو کچھ لوگوں کے ساتھ رہتا ہے اور وہ عقل کا بدھو ہے، نہ اسے عورتوں کی پروا ہے نہ ان سے کوئی جنسی حاجت، تو وہ زینت جو ان لوگوں کے سامنے کھول سکتی ہے وہ اس کی بالیاں، ہار اور کنگن ہیں، رہی اس کی پازیب، بازو، سینہ اور بال تو وہ صرف خاوند کے سامنے کھول سکتی ہے۔‘‘ (3) ’’ وَ لَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّ ‘‘ میں پاؤں کو زور سے زمین پر مارنے سے منع کیا کہ مردوں کو ان کے زیور کی آواز سے شہوانی خیال پیدا نہ ہو۔ اب ایک عورت جو معلوم نہیں جوان ہے یا بوڑھی، خوبصورت ہے یا بدصورت، اس کی پازیب کی آواز دلوں میں خرابی پیدا کرتی ہے اور اسے چھپائے رکھنے کا حکم ہے، تو چہرہ جس پر کسی عورت کے خوبصورت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ہوتا ہے، وہ کھلا رکھنا کیسے جائز ہو گیا؟ (4) ﴿ ٰاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ذٰلِكَ اَدْنٰى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا﴾ [الأحزاب : ۵۹ ] ’’اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے آپ پر لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انھیں تکلیف نہ پہنچائی جائے۔‘‘ اس آیت کی تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنھما سے اوپر گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب کسی کام کے لیے گھروں سے باہر نکلیں تو اپنے چہروں کو اپنے سروں کے اوپر سے بڑی چادروں کے ساتھ ڈھانپ لیں اور ایک آنکھ کھلی رکھیں ( اگر راستہ وغیرہ دیکھنے کی ضرورت ہو، ورنہ وہ بھی نہیں)۔ اس آیت سے استدلال کی مزید تفصیل کے لیے سورۂ احزاب ملاحظہ فرمائیں۔ (5) ﴿ وَ الْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآءِ الّٰتِيْ لَا يَرْجُوْنَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ اَنْ يَّضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجٰتٍۭ بِزِيْنَةٍ وَ اَنْ يَّسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّهُنَّ وَ اللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ﴾ [النور : ۶۰ ] ’’اور عورتوں میں سے بیٹھ رہنے والیاں، جو نکاح کی امید نہیں رکھتیں، سو ان پر کوئی گناہ نہیں کہ اپنے کپڑے اتار دیں، جب کہ وہ کسی قسم کی زینت ظاہر کرنے والی نہ ہوں اور یہ بات کہ (اس سے بھی) بچیں ان کے لیے زیادہ اچھی ہے اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘ استدلال کی تفصیل کے لیے اس آیت کی تفسیر دیکھیے۔ (6) ﴿ لَا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِيْ اٰبَآىِٕهِنَّ وَ لَا اَبْنَآىِٕهِنَّ وَ لَا اِخْوَانِهِنَّ وَ لَا اَبْنَآءِ اِخْوَانِهِنَّ وَ لَا اَبْنَآءِ اَخَوٰتِهِنَّ وَ لَا نِسَآىِٕهِنَّ وَ لَا مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ وَ اتَّقِيْنَ اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدًا﴾ [الأحزاب :۵۵ ] ’’ان (عورتوں) پر کوئی گناہ نہیں اپنے باپوں (کے سامنے آنے) میں اور نہ اپنے بیٹوں کے اور نہ اپنے بھائیوں کے اور نہ اپنے بھتیجوں کے اور نہ اپنے بھانجوں کے اور نہ اپنی عورتوں کے اور نہ ان (کے سامنے آنے) میں جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ ہیں اور (اے عورتو!) اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ ہمیشہ سے ہر چیز پر پوری طرح شاہد ہے۔‘‘ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’جب اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اجنبیوں سے حجاب کا حکم دیا تو وضاحت فرما دی کہ ان اقارب سے حجاب نہیں، جیسا کہ سورۂ نور کی آیت (۳۱): ﴿وَ لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوْبِهِنَّ وَ لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآىِٕهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآىِٕهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآىِٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلٰى عَوْرٰتِ النِّسَآءِ ﴾ میں وضاحت فرمائی ہے، جب ان اقارب سے پردہ نہ کرنے میں گناہ نہیں تو معلوم ہوا کہ اجنبیوں سے پردہ نہ کرنے میں گناہ ہے۔‘‘ (7) احادیث سے بھی عورتوں کے لیے پردے کا حکم ثابت ہے، یہاں چند احادیث درج کی جاتی ہیں، اس سے پہلے صحیح بخاری میں سے عائشہ رضی اللہ عنھا کی لمبی حدیث بیان ہو چکی ہے، جس میں وہ فرماتی ہیں کہ صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ لشکر کے پیچھے تھے، وہ صبح کے وقت جب اس جگہ پہنچے جہاں میں لیٹی ہوئی تھی، تو اس نے ایک سویا ہوا انسان دیکھا، پھر جب وہ میرے پاس آئے، تو اس نے مجھے پہچان لیا، کیونکہ وہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے مجھے دیکھ چکے تھے، تو میں نے اپنی بڑی چادر کے ساتھ اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ [ بخاري : ۲۶۶۱ ] یہ حدیث صاف دلیل ہے کہ اگر حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے انھوں نے ام المومنین کو نہ دیکھا ہوتا تو وہ کبھی نہ پہچان سکتے، کیونکہ حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد انھیں دیکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ (8) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عورتوں کو عید کے لیے نکلنے کا حکم دیا تو انھوں نے کہا: ((يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! إِحْدَانَا لَيْسَ لَهَا جِلْبَابٌ، قَالَ لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا )) [ بخاري، الصلاۃ، باب وجوب الصلاۃ في الثیاب : ۳۵۱ ] ’’یا رسول اللہ! ہم میں سے کسی کے پاس بڑی چادر نہیں ہوتی؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس کی بہن اسے پہننے کے لیے کوئی اپنی بڑی چادر دے دے۔‘‘ اگر پردہ فرض نہ ہوتا تو ان کے سوال کا جواب تھا کہ دوپٹا ہی کافی ہے، بڑی چادر کی ضرورت نہیں۔ (9) عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں : ’’اونٹوں کے سوار ہمارے پاس سے گزرتے، جب کہ ہم احرام کی حالت میں ہوتیں، تو جب وہ ہمارے برابر آتے تو ہم میں سے ہر ایک اپنی بڑی چادر سر سے چہرے پر لٹکا لیتی، جب گزر جاتے تو ہم اسے ہٹا دیتیں۔‘‘ [ أبوداؤد، المناسک، باب في المحرمۃ تغطي وجھھا : ۱۸۳۳ ] عبد المحسن العباد نے ابوداؤد کی شرح میں فرمایا : ’’اس حدیث میں ایک راوی پر کلام کیا گیا ہے، اسی لیے البانی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف ابی داؤد میں ذکر کیا ہے، لیکن انھوں نے ’’مشکوٰۃ‘‘ میں اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے اور ’’حجاب المرأۃ المسلمۃ‘‘ میں بھی حسن کہا ہے اور اسماء رضی اللہ عنھا سے ایک صحیح سند کے ساتھ اس کا شاہد بھی ہے، چنانچہ یہ حدیث اپنے شواہد کی وجہ سے صحیح ہے۔‘‘ تو احرام کی حالت میں، جب نقاب پہننا منع ہے، اگر پردہ واجب نہ ہوتا تو وہ چہرے پر چادریں کیوں لٹکاتیں؟ 5۔ اب ان لوگوں کے دلائل ملاحظہ فرمائیں جو چہرے اور ہتھیلیوں کے پردے کو واجب نہیں مانتے، ان کی سب سے بڑی دلیل قرآن مجید کے الفاظ ’’ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ‘‘ کی ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی تفسیر ہے کہ اس سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں اور صحابی کی تفسیر حجت ہے ۔ابن عباس رضی اللہ عنھما کا پورا قول اور اس کی وضاحت اوپر گزر چکی ہے، ابن عباس رضی اللہ عنھما نے محرم رشتہ داروں کے سامنے چہرہ اور ہاتھ کھولنے کی بات فرمائی ہے نہ کہ اجنبیوں کے سامنے اور اگر کسی کو اصرار ہو کہ ابن عباس رضی اللہ عنھما سب لوگوں کے سامنے عورت کا چہرہ اور ہتھیلیاں کھلی رکھنے کے قائل ہیں، تو یاد رہے کہ کسی صحابی کی تفسیر اسی وقت حجت ہوگی جب دوسرے کسی صحابی نے اس کے خلاف تفسیر نہ کی ہو۔ یہاں ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اجنبیوں کے سامنے صرف کپڑوں کا ظاہر ہو جانا جائز رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے: ﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ﴾ [ النساء : ۵۹ ] ’’پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ۔‘‘ یعنی تنازع کے وقت کسی کی بات بھی حجت نہیں رہتی، اس وقت صرف اللہ اور اس کے رسول کی بات حجت ہوتی ہے اور قرآن و سنت کی رو سے غیر محرم مردوں سے چہرے اور ہاتھوں کا پردہ واجب ہے، جیسا کہ آپ اس سے پہلے پڑھ چکے ہیں۔ ان حضرات کی دوسری دلیل عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی سنن ابی داؤد کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سالی اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنھما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور انھوں نے باریک کپڑے پہنے ہوئے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے رخ پھیر لیا اور فرمایا: ((يَا أَسْمَاءُ! إِنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا بَلَغَتِ الْمَحِيْضَ لَمْ يَصْلُحْ لَهَا أَنْ يُّرَی مِنْهَا إِلَّا هٰذَا وَ هٰذَا )) [أبوداؤد، اللباس، باب فیما تبدی المرأۃ من زینتھا : ۴۱۰۴ ] ’’اسماء! عورت جب بلوغت کو پہنچ جائے تو (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ) اس کے سوا اور اس کے سوا اس کی کوئی چیز نظر آنا درست نہیں۔‘‘ اس حدیث سے عورت کا غیر محرم کے سامنے چہرہ اور ہتھیلیاں ظاہر کرنا جائز ثابت ہوا۔ اس دلیل کے متعلق عبد المحسن العباد نے ابوداؤد کی شرح میں فرمایا ہے : ’’یہ حدیث صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس میں انقطاع ہے ( خود امام ابوداؤد نے فرمایا ہے کہ خالد بن دریک نے عائشہ رضی اللہ عنھا سے نہیں سنا) اور اس میں سعید بن بشیر ضعیف ہے، پھر اس میں ولید کی تدلیس ہے اور اس کے متن میں بھی نکارت ہے، کیونکہ یہ بات بہت بعید ہے کہ اسماء بڑی عمر میں باریک کپڑوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئیں، کیونکہ ہجرت کے وقت ان کی عمر ستائیس برس تھی۔‘‘ محمد بن صالح بن عثیمین نے بھی ’’رسالۃ الحجاب‘‘ میں انھی وجوہ سے حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ اگر اس حدیث کو صحیح بھی مانا جائے تو اس میں یہ احتمال موجود ہے کہ یہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے اور یہ مسلّمہ قاعدہ ہے کہ احتمال کے ہوتے ہوئے استدلال ممکن نہیں ہوتا۔ اردو تفسیر کے ایک مصنف نے اس حدیث سے یہ دلیل اخذ کی ہے کہ اجنبیوں کے سامنے تو نہیں البتہ عورت محرم رشتہ داروں کے علاوہ ان رشتہ داروں کے سامنے بھی چہرہ اور ہتھیلیاں کھول سکتی ہے جو محرم نہ ہوں، مگر جب روایت ہی ثابت نہیں تو اس سے استدلال کیسے ہو سکتا ہے۔ انھی بزرگوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چچا زاد بہن ام ہانی رضی اللہ عنھا آخر وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آتی رہیں اور کم از کم منہ اور چہرے کا پردہ انھوں نے آپ سے کبھی نہیں کیا۔ اس کی دلیل کے طور پر انھوں نے ابوداؤد سے ایک روایت کا حوالہ دیا ہے، جس میں ہے کہ ام ہانی رضی اللہ عنھا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچا ہوا پانی پیا، اس میں چہرہ کھلا ہونے کا ذکر ہی نہیں۔ تعجب ہوتا ہے کہ کئی بزرگ کس طرح اپنے پاس سے بات بنا کر اسے کتب احادیث کے ذمے لگا دیتے ہیں اور کسی دلیل کے بغیر یہ دعویٰ کر دیتے ہیں کہ فلاں عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چہرے کا پردہ کبھی نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات بالکل بے دلیل ہے کہ غیر محرم رشتہ داروں کے سامنے عورت کے لیے چہرہ اور ہاتھ کھولنے جائز ہیں اور یہ بات فتنے کا بہت بڑا دروازہ کھولنے کا باعث ہے ۔ تیسری دلیل ان حضرات کی صحیح بخاری میں مروی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کی روایت ہے کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنھما سواری پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے، تو خثعم قبیلے کی ایک عورت آئی تو فضل اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ فضل کی طرف دیکھنے لگی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فضل کا منہ دوسری طرف پھیرنے لگے۔ [ بخاري، الحج، باب وجوب الحج....: ۱۵۱۳ ] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں پردہ نہیں کیا، اگر پردہ ضروری ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پردے کا حکم دیتے۔ جواب اس کا یہ ہے کہ اس میں یہ ذکر نہیں کہ وہ عورت بے پردہ تھی، اگر فرض کیا جائے کہ وہ بے پردہ تھی تو اس میں یہ ذکر نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پردے کا حکم نہیں دیا۔ پردے کا حکم جب اس سے پہلے آیات و احادیث کے ذریعے امت تک پہنچ چکا تھا تو اگر کسی موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تاکید نقل نہ بھی ہوئی ہو تو کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ 6۔ وَ لْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوْبِهِنَّ: ’’خُمُرٌ‘‘ ’’خِمَارٌ‘‘ کی جمع ہے ’’اوڑھنی۔‘‘ ’’جُيُوْبٌ‘‘ ’’جَيْبٌ‘‘ کی جمع ہے ’’گریبان۔‘‘ یعنی عورتوں کو چاہیے کہ اپنی اوڑھنیاں سر سے لا کر گریبان پر ڈالیں، تاکہ سینہ اور گلے کا زیور چھپا رہے۔ اسلام سے پہلے کی جاہلیت میں عورتیں اپنے سینوں پر کچھ نہیں ڈالتی تھیں، بلکہ وہ دوپٹے کے دونوں کنارے پیچھے کی طرف لٹکا لیتیں، جس سے بسا اوقات ان کی گردن، بال، چوٹی، زیور اور چھاتی صاف نظر آتی تھیں، موجودہ زمانے کی جاہلیت کا حال اس سے بھی بدتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا۔ سورۂ احزاب کی آیت (۵۸) میں بھی عورتوں کو بڑی چادریں نیچے لٹکا کر رکھنے کا حکم دیا۔ عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا: ((يَرْحَمُ اللّٰهُ نِسَاءَ الْمُهَاجِرَاتِ الْأُوَلَ لَمَّا أَنْزَلَ اللّٰهُ: ﴿وَ لْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوْبِهِنَّ﴾ شَقَقْنَ أَكْنَفَ مُرُوْطِهِنَّ فَاخْتَمَرْنَ بِهَا)) [ أبو داؤد، اللباس، باب في قول اللہ تعالٰی: ﴿و لیضربن بخمرھن علی جیوبھن ﴾ : ۴۱۰۲ ]’’اللہ تعالیٰ پہلی مہاجر عورتوں پر رحم فرمائے، جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری : ﴿وَ لْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوْبِهِنَّ ﴾ تو انھوں نے اپنی سب سے موٹی چادریں پھاڑیں اور انھیں اوڑھ لیا۔‘‘ 7۔ لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ....: یعنی بے اختیار ظاہر ہونے والی زینت یعنی لباس تو خود ہی ظاہر ہو جاتا ہے، گھر کے اندر یا گھر سے باہر کسی جگہ لباس کے ظاہر ہونے میں کوئی گناہ نہیں، البتہ اس کے علاوہ زینت ظاہرہ یعنی چہرہ اور ہاتھ صرف ان لوگوں کے سامنے ظاہر کر سکتی ہیں جن کا اس آیت میں ذکر ہے، یہ کل بارہ (۱۲) ہیں۔ ان کے ساتھ وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کا ذکر حدیث میں ہے۔ ان میں سب سے پہلے خاوند ہے، اس کے سامنے تو عورت اپنی ظاہر و باطن ہر زینت ظاہر کر سکتی ہے، کیونکہ اس کی ساری زینت خاوند ہی کی امانت ہے۔ البتہ اس کے بعد جن لوگوں کا ذکر ہے ان کے سامنے صرف چہرہ اور ہاتھ کھول سکتی ہیں۔ ’’ اَوْ اٰبَآىِٕهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ ‘‘ آباء میں دادا و پڑدادا اور نانا و پڑنانا بھی شامل ہیں۔ رضاعی باپ دادا کا بھی یہی حکم ہے۔ آیت میں چچا اور ماموں کا ذکر نہیں۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ ان کا ذکر اس لیے نہیں فرمایا کہ اگر وہ اپنی بھتیجی یا بھانجی کو دیکھیں گے تو ممکن ہے کہ اپنے بیٹوں کے سامنے ان کے حسن و جمال کا ذکر کریں، اس لیے ان کے بقول چچا اور ماموں سے بھی پردہ ہے، مگر یہ بات غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چچا اور ماموں بھی باپ کے حکم میں ہیں، انھیں بھی مجازاً باپ کہہ دیا جاتا ہے، جیسا کہ یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے کہا تھا: ﴿نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَ اِلٰهَ اٰبَآىِٕكَ اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِيْلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًا﴾ [البقرۃ : ۱۳۳ ] ’’ہم تیرے معبود اور تیرے باپ داد ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی پیروی کریں گے جو ایک ہی معبود ہے۔‘‘ اس میں اسماعیل علیہ السلام کو یعقوب علیہ السلام کا باپ کہا ہے، حالانکہ وہ ان کے چچا تھے۔ رضاعی چچا اور رضاعی ماموں سے بھی پردہ نہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میرا رضاعی چچا آیا اور اس نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے بغیر اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور میں نے اس کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّهُ عَمُّكِ فَأْذَنِيْ لَهُ، قَالَتْ، فَقُْلْتُ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِي الْمَرْأَةُ وَلَمْ يُرْضِعْنِي الرَّجُلُ، قَالَتْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ إِنَّهُ عَمُّكِ فَلْيَلِجْ عَلَيْكِ قَالَتْ عَائِشَةُ وَ ذٰلِكَ بَعْدَ أَنْ ضُرِبَ عَلَيْنَا الْحِجَابُ، قَالَتْ عَائِشَةُ يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا يَحْرُمُ مِنَ الْوِلَادَةِ )) [بخاري، النکاح، ما یحل من الدخول....: ۵۲۳۹ ]’’وہ تمھارا چچا ہے، اسے اندر آنے دو۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ میں نے کہا : ’’یا رسول اللہ! مجھے دودھ عورت نے پلایا ہے، مرد نے نہیں۔‘‘ کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ تمھارا چچا ہے، اسے اندر آنے دو۔‘‘ عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں : ’’اور یہ حجاب فرض ہونے کے بعد کا واقعہ ہے۔‘‘ عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا : ’’رضاعت سے وہ سب رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو ولادت سے حرام ہوتے ہیں۔‘‘ ’’ اَوْ اَبْنَآىِٕهِنَّ۠ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ ‘‘ بیٹوں میں ساری اولاد شامل ہے، بیٹے، پوتے، نواسے اور ان سے بھی نیچے تک سب بیٹے ہیں۔ ’’ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْ اَخَوٰتِهِنَّ ‘‘ بھائیوں اور بہنوں میں عینی بھی شامل ہیں، جو ماں باپ دونوں کی طرف سے ہوں، علاتی بھی، جو صرف باپ کی طرف سے ہوں اور اخیافی بھی، جو صرف ماں کی طرف سے بھائی بہن ہوں۔ ایسے بھائی، بھتیجے، بھانجے اور ان کے بیٹے، پوتے اور نواسے نیچے تک کسی سے بھی پردہ نہیں، بلکہ وہ تمام مرد جن سے نکاح حرام ہے کسی سے بھی پردہ نہیں، مثلاً داماد اور ساس وغیرہ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُسَافِرَ مَسِيْرَةَ يَوْمٍ وَ لَيْلَةٍ لَيْسَ مَعَهَا حُرْمَةٌ )) [ بخاري، التقصیر، باب في کم یقصر الصلاۃ ؟: ۱۰۸۸ ] ’’کسی عورت کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو حلال نہیں کہ وہ ایک دن رات کا سفر محرم کے بغیر کرے۔‘‘ ’’ اَوْ نِسَآىِٕهِنَّ ‘‘ اپنی عورتوں سے پردہ نہ ہونے سے ظاہر ہے کہ جو اپنی نہ ہوں ان سے پردہ ہے۔ عبد الرحمان کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’اپنی عورتوں سے مراد آپس میں میل ملاقات رکھنے والی مسلمان عورتیں ہیں، جو ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتی پہچانتی اور ایک دوسرے پر اعتبار رکھتی ہوں۔ رہی دوسری غیر مسلم، مشتبہ اور اَن جانی عورتیں تو ایسی عورتوں سے اپنی زیب و زینت چھپانے اور حجاب کا ایسا ہی حکم ہے جیسے غیر مردوں سے ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ عورتیں ہی ہوتی ہیں جو قحبہ گری کی دلالی بھی کرتی ہیں، نو خیز اور نوجوان لڑکیوں کو اپنے دام تزویر میں پھنسا کر غلط راہوں پر ڈال دیتی ہیں اور شیطان کی پوری نمائندگی کرتی ہیں۔ ایک گھر کے بھید کی باتیں دوسرے گھر میں بیان کرکے فحاشی پھیلاتی اور اس کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ ایسی بدمعاش قسم کی عورتوں سے پرہیز کی سخت ضرورت ہے۔ لہٰذا تمام اَن جانی اور غیر مسلم عورتوں یا غیر عورتوں سے بھی حجاب کا حکم دیا گیا، بلکہ ایسی عورتوں کو گھروں میں داخلہ پر بھی ایسے ہی پابندی لگانا ضروری ہے جیسے غیر مردوں کے لیے ضروری ہے۔‘‘ (تیسیر القرآن) ’’ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ ‘‘ عورت اپنے غلام کے سامنے بھی اپنی وہ زینت ظاہر کر سکتی ہے جو دوسرے محرموں کے سامنے ظاہر کرتی ہے۔ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک غلام لے کر فاطمہ رضی اللہ عنھا کے پاس آئے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ہبہ کیا تھا، فاطمہ رضی اللہ عنھا پر ایک کپڑا تھا، وہ اس کے ساتھ سر ڈھانپتیں تو پاؤں تک نہ پہنچتا اور جب اس کے ساتھ پاؤں ڈھانپتیں تو سر پر نہ پہنچتا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مشکل دیکھی تو فرمایا: ((إِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكِ بَأْسٌ إِنَّمَا هُوَ أَبُوْكِ وَ غُلَامُكِ )) [ أبوداؤد، اللباس، باب فی العبد ینظر إلی شعر مولاتہ : ۴۱۰۶، قال الألباني صحیح ]’’تم پر کوئی حرج نہیں، یہاں صرف تمھارا باپ ہے اور تمھارا غلام ہے۔‘‘ اس حدیث سے اجنبیوں کے سامنے سر اور پاؤں چھپانے کا حکم بھی ثابت ہوا۔ ’’ اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ ‘‘ اس کی تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنھما سے زیر تفسیر آیت کے فائدہ نمبر(۴) کے تحت دیکھیے۔ ’’ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلٰى عَوْرٰتِ النِّسَآءِ ‘‘ سے مراد وہ بچے ہیں جو نابالغ ہوں اور انھیں میاں بیوی کے معاملے کی خبر نہ ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان نابالغ بچوں سے پردہ کرنا چاہیے جنھیں ایسے معاملات کی خبر ہو اور وہ عورت کی خوبصورتی اور بدصورتی کا ادراک رکھتے ہوں، اس اندازے کے لیے اس حدیث میں اشارہ ملتا ہے جو عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَ هُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِيْنَ وَاضْرِبُوْهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرِ سِنِيْنَ وَ فَرِّقُوْا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ )) [ أبوداؤد، الصلاۃ، باب متی یؤمر الغلام بالصلاۃ : ۴۹۵، قال الألباني حسن صحیح ] ’’اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات برس کے ہوں اور انھیں اس کی وجہ سے مارو جب وہ دس برس کے ہوں اور انھیں بستروں میں ایک دوسرے سے الگ کر دو۔‘‘ ’’ وَ لَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ ....‘‘ طبری نے حسن سند کے ساتھ (عن علی بن ابی طلحہ عن ابن عباس رضی اللہ عنھما ) بیان کیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ عورت مردوں کی موجودگی میں ایک پازیب کو دوسری کے ساتھ کھڑکائے۔ اس کے پاؤں میں پازیبیں ہوں، جنھیں وہ مردوں کے پاس حرکت دے تو اللہ سبحانہ نے اس سے منع کر دیا، کیونکہ یہ شیطان کا عمل ہے۔ [ طبري : ۲۶۲۱۷ ] یہاں چہرے کے پردے کو واجب نہ ماننے والے حضرات کو غور کرنا چاہیے کہ جب عورتوں کو زور سے پاؤں مار کر پازیبوں کی آواز نکالنا منع ہے کہ کہیں مردوں کو ان کی مخفی زینت معلوم نہ ہو جائے، جس سے ان کے دلوں میں کوئی غلط خیال پیدا ہو، تو یہ آواز مردوں کے دلوں میں زیادہ کشش اور فتنے کا باعث ہے، یا چہرہ جو عورت کے حسن و جمال کا آئینہ ہے؟ فیصلہ کرتے وقت انصاف شرط ہے۔ 8۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر اس دروازے کو بند کرنا چاہتے ہیں جس سے فحاشی کے در آنے کا امکان ہو۔ اس لیے جس طرح پاؤں مار کر زینت کا اظہار منع ہے اسی طرح کوئی بھی ایسی حرکت جس سے پوشیدہ زینت کا اظہار ہو، منع ہے۔ چنانچہ عورت کو خوشبو لگا کر گھر سے نکلنا منع ہے، اسے راستے کے درمیان چلنے سے منع کیا گیا ہے اور راستے کے کنارے پر چلنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تفصیل ابن کثیر میں ملاحظہ فرمائیں۔ زینت کے اظہار کے علاوہ اسے غیر مردوں کے ساتھ نرم اور لوچدار لہجے میں بات کرنا منع ہے، جس سے ان کے دل میں طمع پیدا ہو۔ [ دیکھیے الأحزاب : ۳۲ ] حتیٰ کہ اسے نماز میں ’’سبحان اللہ‘‘ کہنے کے بجائے ہاتھ پر ہاتھ مار کر امام کو اس کی خطا پر متنبہ کرنے کا حکم ہے۔ (دیکھیے بخاری : ۱۲۰۳) البتہ جب کسی قسم کا غلط خیال پیدا ہونے کا خطرہ نہ ہو تو عورت پردے میں رہ کر مردوں کو نصیحت کر سکتی ہے، انھیں علم پڑھا سکتی ہے، جیسا کہ امہات المومنین اور قرون خیر کی عورتیں مردوں کو احادیث بیان کیا کرتی تھیں۔ عورت کو محرم یا خاوند کے بغیر سفر کرنا منع ہے، کسی غیر محرم کے ساتھ خلوت منع ہے، حتیٰ کہ خاوند کے بھائی کے ساتھ بھی تنہائی میں بیٹھنا منع ہے، بلکہ دیور اور جیٹھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت قرار دیا۔ (دیکھیے بخاری : ۵۲۳۲) اگرچہ اسے مسجد میں نماز اور جمعہ کے لیے جانے کی اجازت ہے، مگر گھر میں اس کی نماز کو افضل قرار دیا گیا ہے مگر چونکہ مسجد میں قرآن کی تلاوت اور خطبہ وغیرہ سن کر علم حاصل ہوتا ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِذَا اسْتَأْذَنَتْ أَحَدَكُمُ امْرَأَتُهُ إِلَي الْمَسْجِدِ فَلَا يَمْنَعْهَا )) [ مسلم، الصلاۃ، باب خروج النساء إلی المساجد....: ۴۴۲۔ بخاري : ۸۷۳ ] ’’جب تم میں سے کسی کی بیوی اس سے مسجد میں جانے کی اجازت مانگے تو وہ اسے منع نہ کرے۔‘‘ عورتوں کو خاوندوں کے لیے زیبائش و آرائش کی اجازت ہے، بلکہ اس کا حکم ہے، مگر اس میں جعل سازی کی اجازت نہیں، جس سے اس کی فطری شکل و صورت تبدیل ہو جائے۔ عورتیں عموماً ایسے کام غیر مردوں کو مائل کرنے کے لیے اختیار کرتی ہیں، مثلاً ابروؤں کو باریک کرنا، چہرے کے بال اکھاڑنا، سر کے بالوں میں بال ملانا، اللہ کی پیدائش کو بدلنا، ان سب پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔ (دیکھیے بخاری : ۴۸۸۶) اسی طرح اونچی ایڑی کے ساتھ قد لمبا کرکے دکھانا بنی اسرائیل کے فساد کے زمانے میں ان کی عورتوں کا شیوہ تھا۔ افسوس ! اب مسلم عورتوں نے کفار کی تقلید میں ہر وہ طریقہ اختیار کر لیا ہے جس سے وہ غیروں کی نظر میں خوش نما معلوم ہوں اور ان کے مردوں کی غیرت و حمیت بھی ایسی ختم ہوئی ہے کہ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے برداشت کرتے ہیں، بلکہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ 9۔ وَ تُوْبُوْا اِلَى اللّٰهِ جَمِيْعًا : سورت کی ابتدا سے لے کر یہاں تک جو احکام بیان ہوئے ہیں، چونکہ ان کی پابندی میں کچھ نہ کچھ کوتاہی ہو ہی جاتی ہے، بلکہ ہر کام ہی میں خطا ہو جاتی ہے، اس لیے ’’اے مومنو!‘‘ کہہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹنے اور گناہوں سے توبہ کرنے کا حکم دیا، یعنی تمھارے مومن ہونے کا تقاضا ہے کہ جو گناہ تم کر چکے یا آئندہ تم سے سرزد ہوں گے ان سے اللہ کی طرف توبہ کرو اور آئندہ بھی کرتے رہو۔ ’’ جَمِيْعًا ‘‘ کہہ کر مردوں اور عورتوں سب کو توبہ کا حکم دیا اور توبہ کے نتیجے میں فلاح و کامیابی کی بشارت دی۔ توبہ کے تین فرائض ہیں : (1) اس بات پر ندامت کہ میں نے اس گناہ کے ساتھ اللہ ذوالجلال والاکرام کی نافرمانی کی، اس پر نہیں کہ اس سے مجھے جسمانی یا مالی نقصان ہوا۔ (2)کسی تاخیر کے بغیر جتنی جلدی ممکن ہو اس گناہ سے باز آ جانا۔ (3) اس بات کا عزم کہ آئندہ کبھی یہ گناہ نہیں کروں گا۔ اگر نفس کی شامت سے پھر گناہ ہو جائے تو پھر توبہ کرے۔ توبہ کے تین آداب ہیں : (1) گناہ کا نہایت عاجزی کے ساتھ اعتراف۔ (2) زیادہ سے زیادہ گڑ گڑا کر بخشش کی دعا کرنا۔ (3)گزشتہ گناہوں کو مٹانے کے لیے زیادہ سے زیادہ نیکی کرنا۔ (التسہیل)