قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ
مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں (١) اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھیں (٢) یہ ان کے لئے پاکیزگی ہے، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالیٰ سب سے خبردار ہے۔
1۔ قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ: ’’غَضَّ طَرْفَهُ، خَفَضَهُ‘‘ ’’اس نے اپنی آنکھ نیچی کر لی۔‘‘ دوسرا معنی ہے ’’نَقَصَ وَ وَضَعَ مِنْ قَدْرِهِ‘‘ ’’اس نے فلاں کی قدر کم کی۔‘‘ (قاموس) زنا اور بہتان سے محفوظ رکھنے کے لیے گھروں میں داخلے کے آداب بیان فرمانے کے بعد نظر کی حفاظت کا حکم دیا، کیونکہ آدمی کے دل کا دروازہ یہی ہے اور تمام شہوانی فتنوں کا آغاز عموماً یہیں سے ہوتا ہے۔ احمد شوقی نے کہا ہے : ’’نَظْرَةٌ فَابْتِسَامَةٌ فَسَلَامٌ فَكَلَامٌ فَمَوْعِدٌ فَلِقَاءٌ‘‘ ’’نظر ملتی ہے، پھر مسکراہٹ، پھر سلام، پھر گفتگو، پھر وعدہ اور پھر ملاقات تک بات جا پہنچتی ہے۔‘‘ 2۔ اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے ’’ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ‘‘ کے ساتھ براہ راست مخاطب فرمایا ہے، جیسا کہ ’’ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ‘‘ اور ’’ لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ ‘‘ سے پہلے ہے، یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا : ’’مومن مردوں سے کہہ دے‘‘ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ نظر کا معاملہ نہایت خطرناک ہے اور اسے روکنا نہایت مشکل کام ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے شہنشاہانہ جلال کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ مومن مردوں سے کہہ دے اور مومن عورتوں سے کہہ دے۔ (البقاعی) (واللہ اعلم) 3۔ ’’ قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ ‘‘ میں’’ مِنْ ‘‘ تبعیض کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ’’مومن مردوں سے کہہ دے اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ نہیں کہ کسی چیز کو بھی نظر بھر کر نہ دیکھو، راستہ چلتے ہوئے بھی نگاہ مت اٹھاؤ، بلکہ حکم کچھ نگاہیں نیچی رکھنے کا ہے اور مراد ان چیزوں سے نگاہ نیچی رکھنا ہے جن کی طرف نگاہ بھر کر دیکھنا اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے، مثلاً اپنی بیوی اور محرم رشتوں کے سوا عورتوں کو دیکھنا، کسی ڈاڑھی کے بغیر لڑکے کو شہوت کی نظر سے دیکھنا، یا کسی کا خط یا وہ چیز دیکھنا جسے وہ چھپانا چاہتا ہے وغیرہ۔ 4۔ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ : بلا ارادہ پڑنے والی پہلی نظر معاف ہے، گناہ اس نظر پر ہے جو جان بوجھ کر ڈالی جائے۔ نظر کا ذکر خصوصاً فرمایا، کیونکہ عموماً زنا کی ابتدا اس سے ہوتی ہے، ورنہ زنا سارے حواس ہی سے ہوتا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ اللّٰهُ كَتَبَ عَلَی ابْنِ آدَمَ حَظَّهُ مِنَ الزِّنَا أَدْرَكَ ذٰلِكَ لَا مَحَالَةَ فَزِنَا الْعَيْنِ النَّظَرُ وَ زِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ وَالنَّفْسُ تَتَمَنّٰی وَ تَشْتَهِيْ وَالْفَرْجُ يُصَدِّقُ ذٰلِكَ كُلَّهُ وَ يُكَذِّبُهُ )) [ بخاري، الاستئذان، باب زنا الجوارح دون الفرج : ۶۲۴۳ ] ’’اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر زنا میں سے اس کا حصہ لکھ دیا ہے، جسے وہ لامحالہ حاصل کرے گا، چنانچہ آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے اور نفس تمنا اور خواہش کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب کر دیتی ہے۔‘‘ جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نظر کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنی نظر ہٹا لوں۔‘‘ [ مسلم، الآداب، باب نظر الفجائۃ : ۲۱۵۹ ] البتہ ضرورت کے لیے غیر محرم عورت کو دیکھ سکتا ہے، مثلاً اس سے نکاح کا ارادہ ہو، یا طبی ضرورت ہو، یا کسی حادثہ کی وجہ سے ضرورت پڑ جائے۔ اللہ نے فرمایا: ﴿وَ قَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَيْهِ﴾ [الأنعام : ۱۱۹ ] ’’حالانکہ بلاشبہ اس نے تمھارے لیے وہ چیزیں کھول کر بیان کر دی ہیں جو اس نے تم پر حرام کی ہیں، مگر جس کی طرف تم مجبور کر دیے جاؤ۔‘‘ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا يَنْظُرُ الرَّجُلُ إِلٰی عَوْرَةِ الرَّجُلِ وَلَا الْمَرْأَةُ إِلٰی عَوْرَةِ الْمَرْأَةِ وَ لَا يُفْضِی الرَّجُلُ إِلَی الرَّجُلِ فِيْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ وَلَا تُفْضِی الْمَرْأَةُ إِلَی الْمَرْأَةِ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ )) [مسلم، الحیض، باب تحریم النظر إلی العورات : ۳۳۸ ] ’’کوئی مرد دوسرے مرد کی شرم گاہ نہ دیکھے، نہ ہی کوئی عورت کسی عورت کی شرم گاہ دیکھے۔ نہ کوئی مرد کسی مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں لیٹے اور نہ کوئی عورت کسی عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں لیٹے۔‘‘ 5۔ مرد کے لیے اپنی بیوی یا لونڈی کے جسم کا ہر حصہ دیکھنا جائز ہے، اسی طرح بیوی کے لیے اپنے خاوند کے جسم کا اور لونڈی کے لیے اپنے مالک کے جسم کا ہر حصہ دیکھنا جائز ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ﴾ [البقرۃ : ۱۸۷ ] ’’وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔‘‘ ظاہر ہے کہ لباس سے جسم کا کوئی حصہ پوشیدہ نہیں رہتا۔ ابن ماجہ (۶۶۲) میں عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی حدیث کہ میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرم گاہ نہیں دیکھی، سند کے لحاظ سے ثابت نہیں، کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت کرنے والا راوی مجہول ہے۔ اس کے برعکس عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں : ’’میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، ہمارے ہاتھ اس میں باری باری آتے جاتے تھے۔‘‘ ایک روایت میں ہے : ’’ہم جنبی ہوتے تھے۔‘‘ [ بخاري، الغسل، باب ھل یدخل الجنب یدہ.....: ۲۶۱، ۲۶۳ ] 6۔ وَ يَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ:يہاں ’’مِنْ‘‘ استعمال نہیں فرمایا کہ اپنی کچھ شرم گاہوں کی حفاظت کریں، بلکہ فرمایا، اپنی شرم گاہوں کی مکمل حفاظت کریں، کیونکہ نظر سے مکمل بچاؤ ممکن نہ تھا۔ 7۔ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ : وہ اس حکم پر عمل کرنے والوں کو جزا دے گا اور عمل نہ کرنے والوں کو سزا دے گا، خواہ ان کی نیکی یا بدی سے کوئی آگاہ ہو یا آگاہ نہ ہو، جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح واقف ہے۔ فرمایا: ﴿يَعْلَمُ خَآىِٕنَةَ الْاَعْيُنِ وَ مَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ﴾ [المؤمن : ۱۹ ] ’’وہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور اسے بھی جو سینے چھپاتے ہیں۔‘‘