أَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ أَمْ جَاءَهُم مَّا لَمْ يَأْتِ آبَاءَهُمُ الْأَوَّلِينَ
کیا انہوں نے اس بات میں غور و فکر ہی نہیں کیا (١) بلکہ ان کے پاس وہ آیا جو ان کے اگلے باپ دادوں کے پاس نہیں آیا تھا (٢)۔
1۔ اَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ....: ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے پانچ چیزیں بیان فرمائی ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی بھی سبب ہوتا تو کفار کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پر ایمان نہ لانا معقول تھا، مگر جب ان میں سے کوئی بات بھی نہیں تو ان کے پاس انکار، تکبر اور مذاق اڑانے کا کوئی عذر نہیں۔ 2۔ اَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ: یعنی کیا ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کلام کو انھوں نے سمجھا نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ وجہ نہیں، قرآن کوئی پہیلی نہیں، کسی ایسی زبان میں نہیں جو ان کی سمجھ سے باہر ہو۔ اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو آدمی کی سمجھ سے بالا ہو، وہ اس کی ایک ایک بات کو سمجھتے ہیں۔ مخالفت اس لیے نہیں کر رہے کہ انھوں نے سمجھنے کی کوشش کی اور انھیں سمجھ نہیں آیا، بلکہ اس لیے مخالفت کر رہے ہیں کہ وہ ماننا نہیں چاہتے۔ 3۔ اَمْ جَآءَهُمْ مَّا لَمْ يَاْتِ اٰبَآءَهُمُ الْاَوَّلِيْنَ : یعنی یا ان کے انکار کی یہ وجہ ہے کہ اس نے کوئی نرالی بات پیش کی ہے جو کبھی کسی کے سننے ہی میں نہیں آئی؟ ظاہر ہے یہ بات بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء ہمیشہ آتے رہے ہیں، یہ کوئی پہلا رسول نہیں۔ فرمایا : ﴿ قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ ﴾ [ الأحقاف : ۹ ] ’’کہہ دیجیے میں رسولوں میں سے کوئی انوکھا نہیں ہوں۔‘‘ ان کے گرد و پیش عراق، شام اور مصر میں کئی انبیاء آئے ہیں، ان کی اپنی سرزمین میں ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام آئے، ہود، صالح اور شعیب علیھم السلام آئے۔ یہ خود ان کو سچے رسول مانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ مشرک نہ تھے، بلکہ توحید کی دعوت لے کر آئے تھے۔ غرض ان کے انکار کی وجہ یہ بھی نہیں کہ ان کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کوئی انوکھی بات ہے۔ تنبیہ : قرآن میں جہاں یہ ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں کی طرف بھیجا گیا جن کے آباء کی طرف کوئی رسول نہیں آیا، وہاں مراد قریب زمانے میں رسول کا نہ آنا ہے اور یہاں مراد بعید زمانے میں رسول کا آنا ہے، جو ان کے بھی علم میں ہے، کیونکہ ابراہیم، اسماعیل، ہود، صالح اور شعیب علیھم السلام کو وہ لوگ بھی رسول مانتے تھے۔