حَتَّىٰ إِذَا أَخَذْنَا مُتْرَفِيهِم بِالْعَذَابِ إِذَا هُمْ يَجْأَرُونَ
یہاں تک کہ جب ہم نے ان کے آسودہ حال لوگوں کو عذاب میں پکڑ لیا (١) تو بلبلانے لگے۔
حَتّٰى اِذَا اَخَذْنَا مُتْرَفِيْهِمْ بِالْعَذَابِ ....: ’’ يَجْـَٔرُوْنَ ‘‘ ’’جُؤَارٌ‘‘ درحقیقت گائے یا بیل کے سخت تکلیف میں بلبلانے کو کہتے ہیں۔ عذاب سے مراد بظاہر دنیا میں آنے والا عذاب ہے، خواہ کسی آفت کی صورت میں ہو یا موت کی صورت میں، کیونکہ آسودگی اور خوش حالی کی موجودگی میں وہی آتا ہے۔ عذاب خواہ خوش حال کفار پر آئے یا بدحال کفار پر، چیخنے چلانے اور بلبلانے میں دونوں یکساں ہوتے ہیں، مگر ’’مُتْرَفِيْنَ‘‘ (خوش حال) کا ذکر خاص طور پر اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ یہی لوگ حق کی مخالفت میں پیش پیش ہوتے ہیں اور اپنی سرداری کی وجہ سے بدحال لوگوں کے کفر پر قائم رہنے کا باعث بنتے ہیں۔ (دیکھیے سورۂ سبا : ۳۱ تا ۳۳) اس لیے عذاب نازل ہونے کے وقت ان کی حالت بیان فرمائی کہ ان کی ساری شیخی اور اکڑفوں ختم ہو جائے گی اور وہ سخت تکلیف میں مبتلا بیل کی طرح بلبلائیں گے۔