أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُم بِهِ مِن مَّالٍ وَبَنِينَ
کیا یہ (یوں) سمجھ بیٹھے ہیں؟ کہ ہم جو بھی ان کے مال و اولاد بڑھا رہے ہیں۔
1۔ اَيَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ....: ’’ اَنَّمَا ‘‘ یہاں اکٹھا لفظ نہیں بلکہ ’’أَنَّ‘‘ اور ’’مَا‘‘ (بمعنی اَلَّذِيْ) الگ الگ لفظ ہیں، قرآن کے رسم الخط میں انھیں اکٹھا لکھ دیا گیا ہے، معنی ہے ’’کہ وہ چیزیں جو۔‘‘ 2۔ ہر گروہ کے اپنے حال پر بہت خوش رہنے کا سبب چونکہ انھیں لگنے والا دھوکا تھا کہ خوش حالی اور مال و اولاد کی کثرت اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی دلیل ہے، چنانچہ کفار کہا کرتے تھے کہ ہم اموال و اولاد میں زیادہ ہیں اور ہمیں کسی صورت عذاب نہیں ہو گا۔ دیکھیے سورۂ سبا (۳۵) اور کہف (۳۴ تا ۳۶) اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تنبیہ کے لیے اس کا رد فرمایا۔ 3۔ بَلْ لَّا يَشْعُرُوْنَ: یعنی ان کا یہ گمان درست نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انھیں شعور ہی نہیں کہ مال و اولاد کی یہ فراوانی انھیں مہلت دینے کے لیے اور ان پر حجت تمام کرنے کے لیے ہے کہ جس قدر انھیں ڈھیل ملے اسی قدر ان کے گناہوں کا پیمانہ اور لبریز ہو اور پھر بھرپور طریقے سے ان پر گرفت کی جائے۔ اہل علم فرماتے ہیں کہ جو شخص اللہ کی نافرمانی کرے اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں میں کمی محسوس نہ کرے وہ فکر کر لے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی رسی دراز کی جا رہی ہے۔