سورة المؤمنون - آیت 53

فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ زُبُرًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پھر انہوں نے خود (ہی) اپنے امر (دین) کے آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لئے، ہر گروہ جو کچھ اس کے پاس ہے اس پر اترا رہا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَتَقَطَّعُوْا اَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُرًا : اصل دین تمام پیغمبروں کا ایک ہے، البتہ بعض وقتی احکام میں فرق ہو سکتا ہے۔ آدم علیہ السلام سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک سب کا دین اسلام ہے اور ان کے پیروکار سب امتِ مسلمہ ہیں۔ جس کے چند بنیادی اصول یہ ہیں : (1) توحید، یعنی عبادت صرف اللہ کی ہے، اس کے سوا کسی کی عبادت جائز نہیں۔ (2) قیامت، یعنی مرنے کے بعد سب کو اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور اپنے عمل کا بدلا پانا ہے۔ (3) اکل حلال، یعنی صرف حلال اور طیب کھانا کھانا ہے، حرام سے پوری طرح اجتناب کرنا ہے۔ (4) عمل صالح، یعنی ریا سے بچ کر خالص اللہ کے لیے رسول کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عمل کرنا ہے۔ ہر پیغمبر یہی اصول دین لے کر آیا، مگر لوگوں نے اصول دین ہی میں اختلاف کرکے سیکڑوں فرقے بنا لیے، مثلاً پہلے اصل توحید کو لے لیجیے، صرف ایک اللہ کی عبادت اور اسی سے استعانت کی جگہ کسی نے پیغمبر کو رب بنا لیا، کسی نے احبار و رہبان کو، کسی نے تین رب بنا لیے، کسی نے وحدت الوجود کا عقیدہ نکال لیا کہ ہر چیز میں رب ہے۔ کسی نے کہا، فلاں اللہ کا بیٹا ہے، کسی نے کہا، فلاں اللہ کے نور میں سے جدا شدہ نور ہے۔ کسی نے کہا، اللہ تعالیٰ بزرگوں اور ولیوں میں اتر آتا ہے۔ کسی نے کہا، بزرگ ترقی کرکے رب بن جاتے ہیں۔ اللہ کے سوا کئی ہستیوں کو عالم الغیب اور مختار کل تسلیم کیا گیا۔ حتیٰ کہ انسان نے، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا، اپنے نفع و نقصان کو پتھروں، درختوں، مویشیوں، جن بھوتوں، قبروں اور آستانوں سے وابستہ کر دیا اور ان کے آگے سر جھکانے اور انھی سے مرادیں مانگنے لگا۔ پیغمبروں کی لائی ہوئی توحید پر بہت کم لوگ قائم رہے۔ دوسرا اصل قیامت پر ایمان ہے۔ بعض لوگوں نے دوبارہ جی اٹھنے ہی کا انکار کر دیا اور جنھوں نے اسے تسلیم کیا انھوں نے بھی اس کے تقاضوں کو نہ سمجھا۔ کسی نے کہا، ہم چونکہ انبیاء کی اولاد یا سادات ہیں، لہٰذا ہمیں عذاب کیسے ہو سکتا ہے؟ بعض لوگوں نے جبری سفارش کا عقیدہ وضع کر لیا کہ اگر فلاں مرشد کی بیعت کر لی جائے تو وہ شفاعت کرکے ہمیں چھڑا لیں گے۔ بعض نے یہی عقیدہ اپنے بتوں یا دیوتاؤں سے وابستہ کر لیا۔ نصاریٰ نے کفارے کا عقیدہ گھڑ لیا کہ مسیح علیہ السلام ہم گناہ گاروں کے کفارے کے طور پر سولی چڑھ گئے، اب ان کے نام لیواؤں کے سب گناہ معاف ہیں۔ بعض پادری حضرات اس دنیا ہی میں لوگوں سے رقمیں بٹور کر انھیں معافی نامے جاری کرنے لگے اور بعض لوگوں نے عقیدہ گھڑا کہ اگر فلاں قبر کے بہشتی دروازے کے نیچے سے عرس کے دن گزرا جائے تو یقیناً نجات ہو جائے گی۔ سستی نجات کے ایسے سب عقیدے لغو اور باطل ہیں اور قرآن نے ایسے عقائد رکھنے والوں کو آخرت کے منکر یعنی کافر قرار دیا ہے۔ تیسرا اصل حلال و طیب کھانا تھا، اس میں بھی لوگوں نے افراط و تفریط کی راہ پیدا کر لی۔ راہبوں، جوگیوں اور بعض صوفیوں نے اپنے اوپر حلال اشیاء کو حرام قرار دے لیا اور بعض دوسروں نے حلال و حرام کی تمیز ہی ختم کر دی اور سود اور قوم لوط کے عمل جیسی حرام اشیاء کو، جنھیں ساری شریعتوں میں حرام قرار دیا جاتا رہا، حلال ثابت کرنے کی کوشش کی۔ بہت سے علماء و مشائخ، بتوں کے مہنتوں اور مقبروں اور مزاروں کے مجاوروں نے حلت و حرمت کے اختیارات خود سنبھال لیے۔ ایسے لوگوں کا تذکرہ قرآن میں متعدد بار آیا ہے۔ چوتھا اصل عمل صالح ہے، غالباً اس اصل میں شرک سے بھی زیادہ فرقہ بازی ہوئی، دین کے بعض اصولی احکام کو مسخ کرکے بدعی عقائد و اعمال شامل کر دیے گئے اور ان باتوں کی اصل بنیاد حب جاہ و مال تھی۔ چنانچہ بے شمار سیاسی اور بدعی قسم کے فرقے وجود میں آ گئے، ہر فرقے نے اپنے پیشوا کی بات انبیاء کی بات کی طرح حرف آخر قرار دے دی۔ گویا اس سادہ اور مختصر سی اصولی تعلیم سے اختلاف کر کے لوگ جو فی الحقیقت ایک ہی امت تھے، سیکڑوں ہزاروں فرقوں میں بٹتے چلے گئے اور لطف کی بات یہ ہے کہ ان میں سے ہر فرقہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے اور اپنے علاوہ دوسرے فرقوں کو دوزخ کا ایندھن سمجھتا ہے، حالانکہ یہ اصولی تعلیم آج بھی موجود ہے اور اگر کوئی شخص یا کوئی فرقہ تعصب سے بالاتر ہو کر راہِ حق کو تلاش کرنا چاہے تو راہِ حق آج بھی ایسی چھپی ہوئی چیز نہیں جس کا سراغ نہ لگایا جا سکتا ہو۔ (تیسیرالقرآن از کیلانی رحمہ اللہ بتصرف) كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُوْنَ : ’’ فَرِحُوْنَ ‘‘ بہت خوش۔ یہ ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا لازمی نتیجہ ہے کہ جب کوئی شخص ہر حال میں اپنے گروہ کو قائم رکھنے پر اڑ جاتا ہے تو اس کے دل میں حقیقت کی تلاش کا جذبہ بھی ختم ہو جاتا ہے اور اسے اپنے دھڑے ہی کی ہر بات درست معلوم ہوتی ہے اور وہ اسی پر خوش رہتا ہے، خواہ کتنی غلط ہو اور دوسرے کی بات خواہ کتنی صحیح ہو اسے غلط معلوم ہوتی ہے۔ افسوس! مسلمان بھی خیر القرون کے بعد کتاب وسنت پر ایک جماعت رہنے کے بجائے فرقوں میں بٹ گئے۔ کچھ عقائدی فرقے، کچھ فقہی فرقے اور کچھ صوفی فرقے اور ہر ایک اپنے دھڑے پر اتنی سختی سے قائم ہے کہ اس کے مسلک کے خلاف قرآن مجید کی صریح آیت، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث بھی پیش کی جائے تو وہ یہ کہہ کر اسے ماننے سے انکار کر دے گا کہ کیا ہمارے بڑوں کو اس کا علم نہ تھا؟ اور اب یہ حال ہو گیا ہے کہ شاید مسیح علیہ السلام ہی اس امت کو کتاب و سنت پر جمع فرما سکیں گے۔