وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ
ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب (بھی) دی کہ لوگ راہ راست پر آجائیں (١)۔
1۔ وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُوْنَ : موسیٰ علیہ السلام کو کتاب تورات فرعونیوں کو غرق کرنے کے بعد ملی، جیسا کہ سورۂ اعراف (۱۳۶ تا ۱۴۵) میں فرعون کے غرق ہونے کے بعد موسیٰ علیہ السلام کے چالیس راتوں کے لیے طور پر اعتکاف اور دیدارِ الٰہی والے معاملے کے بعد الواح کی صورت میں کتاب عطا فرمانے کا ذکر ہے۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر تورات فرعون اور قبطیوں کو غرق کرنے کے بعد نازل فرمائی اور تورات نازل کرنے کے بعد کسی امت کو عام عذاب کے ساتھ ہلاک نہیں فرمایا، بلکہ ایمان والوں کو کفار کے ساتھ لڑنے کا حکم دیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَا اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآىِٕرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ ﴾ [ القصص : ۴۳ ] ’’اور بلاشبہ یقیناً ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، اس کے بعد کہ ہم نے پہلی نسلوں کو ہلاک کر دیا، جولوگوں کے لیے دلائل اور ہدایت اور رحمت تھی، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔‘‘ اس لیے ’’ لَعَلَّهُمْ ‘‘ (تاکہ وہ) میں ضمیر ’’هُمْ‘‘ بنی اسرائیل ہی کے لیے قرار دی جائے گی، فرعونیوں کے لیے نہیں۔ 2۔ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُوْنَ : یعنی کتاب تو اس لیے تھی کہ بنی اسرائیل ہدایت حاصل کریں، مگر اپنے آپ میں نبی کو موجود پا کر، اس کے معجزوں کو آنکھوں سے دیکھ کر اور اس پر نازل ہونے والی کتاب کو سن کر بھی ان کے اکثر سیدھی راہ پر نہیں آئے۔ جیسا کہ قرآن میں جا بجا ان کی نافرمانی کے قصے مذکور ہیں۔ امت مسلمہ کو تنبیہ ہے کہ دیکھنا تمھارا حال بھی ان کی طرح نہ ہو جائے۔