يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا ۖ لَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
اے ایمان والو اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھے نہ قیامت پر، اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زور دار مینہ برسے اور وہ اس کو بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے (١) ان ریاکاروں کو اپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی اور اللہ تعالیٰ کافروں کی قوم کو (سیدھی) راہ نہیں دکھاتا۔
1۔ لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰى....: یعنی کسی کو صدقہ دینے کے بعد اس پر احسان جتلا کر یا اسے تکلیف دے کر اس منافق کی طرح اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو جو صرف ریا کاری کے جذبہ کے تحت اپنا مال خرچ کرتا ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں ہے۔ (ابن کثیر) 2۔ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ:یعنی یہ ریا کار بظاہر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں اس کی مثال اس صاف چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی جمی ہوئی ہو ( ”تُرَابٌ“ کی تنوین تقلیل کے لیے ہے) اور دیکھنے والا اسے قابل کاشت زمین خیال کرے، لیکن جونہی بارش ہو اس کی تمام مٹی دھل جائے اور وہ صاف چٹان کی چٹان رہ جائے، اسی طرح ریا کاروں کے عمل ان کے صحیفۂ اعمال سے مٹ جائیں گے اور وہ ان سے نہ کوئی فائدہ اٹھا سکیں گے اور نہ انھیں ان کا کوئی اجر ملے گا۔ اوپر کی آیت میں مثال تھی مخلص مومن کے صدقہ و خیرات کی، جو محض رضائے الٰہی کے لیے خرچ کرتا ہے اور یہ مثال ہے ریا کار کے خرچ کرنے کی، جس کا اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان نہیں ہے۔ (ابن کثیر)