فَأَنشَأْنَا لَكُم بِهِ جَنَّاتٍ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ لَّكُمْ فِيهَا فَوَاكِهُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ
اسی پانی کے ذریعے سے ہم تمہارے لئے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کردیتے ہیں، کہ تمہارے لیے ان میں بہت سے میوے ہوتے ہیں انہی میں سے تم کھاتے بھی ہو (١)
1۔ فَاَنْشَاْنَا لَكُمْ بِهٖ جَنّٰتٍ : پانی اتارنے کے ذکر کے بعد حیات بعد الموت پر دلالت کرنے والی چند چیزیں ذکر فرمائیں، پہلی یہ کہ ہم نے اس پانی کے ساتھ (اپنے لیے نہیں بلکہ) تمھارے لیے کئی قسم کے باغات پیدا فرمائے۔ 2۔ مِنْ نَّخِيْلٍ وَّ اَعْنَابٍ : ’’ نَخِيْلٍ ‘‘ کھجور کے درخت، ’’ اَعْنَابٍ ‘‘ ’’عِنَبٌ‘‘ کی جمع ہے، انگور کا پھل۔ کھجور اور انگور کا خصوصاً ذکر ان کے بے شمار فوائد کی وجہ سے فرمایا، کیونکہ انھیں دوسرے تمام پھلوں پر برتری حاصل ہے، جیسا کہ فرشتوں میں جبریل اور میکال کا خصوصاً الگ ذکر کیا، فرمایا : ﴿ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلّٰهِ وَ مَلٰٓىِٕكَتِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَ جِبْرِيْلَ وَ مِيْكٰىلَ فَاِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِيْنَ﴾ [ البقرۃ : ۹۸ ] ’’جو کوئی اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل اور میکال کا دشمن ہو تو بے شک اللہ کافروں کا دشمن ہے۔‘‘ اور اس لیے بھی کہ عرب میں یہ دونوں پھل زیادہ پائے جاتے ہیں۔ انگور کے پھل کے ذکر سے پہلے کھجور کے پھل کے بجائے اس کے درخت کا ذکر فرمایا، کیونکہ کھجور کا درخت پھل کے علاوہ بھی بہت سے فوائد رکھتا ہے۔ اس کا ہر حصہ کارآمد ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے شجرۂ طیبہ قرار دے کر کلمہ طیبہ کی مثال اس کے ساتھ دی ہے، فرمایا : ﴿ اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ﴾ [ إبراھیم : ۲۴ ] ’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے ایک پاکیز ہ کلمہ کی مثال کیسے بیان فرمائی (کہ وہ) ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہے۔‘‘ کھجور کے درخت کے ضمن میں وہ تمام درخت بھی آ گئے جن کے پھل پھول، پتے، چھال اور لکڑی ہر چیز کارآمد ہے۔ 3۔ لَكُمْ فِيْهَا فَوَاكِهُ كَثِيْرَةٌ ....: اللہ تعالیٰ اپنے احسانات کی طرف توجہ دلانے کے لیے بار بار ’’ لَكُمْ ‘‘ کا لفظ دہرا رہے ہیں کہ یہ سب کچھ تمھارے لیے ہے، ہمارے لیے نہیں، یعنی تمھارے لیے ان باغات میں کھجور کے درختوں اور انگوروں کے علاوہ بہت سے لذیذ پھل ہیں۔ 4۔ وَ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَ : اس جملے کے جملہ اسمیہ پر عطف سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے ایک جملہ فعلیہ محذوف ہے : ’’أَيْ مِنْهَا ﴿وَ هِيَ طَرِيَّةٌ﴾ تَتَفَكَّهُوْنَ وَ مِنْهَا تَأْكُلُوْنَ‘‘ یعنی تم ان کے بعض سے تازہ ہونے کی حالت میں لذت حاصل کرتے ہو اور خشک کرکے یا رس اور روغن نکال کر بعد میں بھی اور یہی تمھاری خوراک کا ایک حصہ بنتے ہیں۔ (بقاعی) ’’ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَ ‘‘ میں یہ بھی شامل ہے کہ انھی کی آمدنی سے سارا سال تمھارے کھانے پینے اور دوسری ضروریات زندگی کا بند و بست ہوتا ہے۔