وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ ۖ وَإِنَّا عَلَىٰ ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ
ہم ایک صحیح انداز سے آسمان سے پانی برساتے ہیں، (١) پھر اسے زمین میں ٹھہرا دیتے ہیں (٢) اور ہم اس کے لے جانے پر یقیناً قادر ہیں۔
1۔ وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ: آسمان کی پیدائش کے بعد اپنی مزید نعمتوں کا ذکر فرمایا۔ پانی بذات خود بہت بڑی نعمت ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ﴾ [ الأنبیاء : ۳۰ ] ’’اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز بنائی۔‘‘ اس آیت میں پانی اتارنے کی عظیم نعمت کے ذکر کے بعد اس کے متعلق تین باتیں فرمائیں، چنانچہ فرمایا کہ ہم نے آسمان سے ایک اندازے کے ساتھ کچھ پانی اتارا، جس سے انسان، حیوان، کھیت اور درخت سیراب ہو سکیں۔ میدانوں، صحراؤں اور پہاڑوں میں زندگی باقی رہ سکے اور سمندروں اور ندی نالوں کی ضرورت پوری ہو سکے، کیونکہ اگر اس مخصوص مقدار سے زیادہ بارش برستی تو سمندر خشکی پر چڑھ کر زندگی کا سلسلہ نیست و نابود کر دیتے اور اگر کم برستی تو انسان، حیوان، درخت اور کھیت زندہ نہ رہ سکتے۔ دوسری جگہ فرمایا کہ صرف پانی ہی نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز مخصوص مقدار میں اتارتا ہے، نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ اِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآىِٕنُهٗ وَ مَا نُنَزِّلُهٗ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ ﴾ [ الحجر : ۲۱ ] ’’اور کوئی بھی چیز نہیں مگر ہمارے پاس اس کے کئی خزانے ہیں اور ہم اسے نہیں اتارتے مگر ایک معلوم اندازے سے۔‘‘ مستدرک حاکم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے : (( مَا مِنْ عَامٍ أَمْطَرَ مِنْ عَامٍ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يُصَرِّفُهُ حَيْثُ يَشَاءُ ثُمَّ قَرَأَ : ﴿ وَ لَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوْا ﴾ الفرقان : ۵۰ )) [ مستدرک حاکم :2؍403، ح : ۳۵۲۰۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ :5؍460، ح : ۲۴۶۱ ] ’’کوئی سال ایسا نہیں جس میں دوسرے کسی سال کی نسبت بارش زیادہ ہوتی ہو، لیکن اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے بارش میں کمی بیشی کرتا ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: ’’اور بلاشبہ یقیناً ہم نے اسے ان کے درمیان پھیر پھیر کر بھیجا، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔‘‘ 2۔ فَاَسْكَنّٰهُ فِي الْاَرْضِ : دوسری بات یہ کہ آسمانوں سے برسنے والا پانی اللہ کے حکم سے مختلف صورتوں میں زمین پر ٹھہر جاتا ہے۔ اس میں سے کچھ چشموں کی صورت میں نمودار ہو جاتا ہے، کچھ زیر زمین محفوظ ہو جاتا ہے، جسے لوگ کنووں وغیرہ کی صورت میں نکال کر استعمال کرتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَلَكَهٗ يَنَابِيْعَ فِي الْاَرْضِ ﴾ [الزمر : ۲۱ ] ’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے کچھ پانی اتارا، پھر اسے چشموں کی صورت زمین میں چلایا۔‘‘ اور کچھ پانی ندی نالوں اور دریاؤں کی صورت اختیار کر جاتا ہے جس سے لوگ اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں، خود پیتے ہیں، غسل کرتے ہیں، کپڑے وغیرہ دھوتے ہیں، جانوروں کو پلاتے ہیں، کھیتیاں اور باغات سیراب کرتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتْ اَوْدِيَةٌۢ بِقَدَرِهَا ﴾ [الرعد : ۱۷] ’’اس نے آسمان سے کچھ پانی اتارا تو کئی نالے اپنی اپنی وسعت کے مطابق بہ نکلے۔‘‘ اور بارش کا کچھ پانی سمندر کی صورت میں ذخیرہ ہو جاتا ہے، جو دوبارہ بارش کا اور انسان کے بے شمار منافع و فوائد کا ذریعہ بنتا ہے۔ 3۔ وَ اِنَّا عَلٰى ذَهَابٍۭ بِهٖ لَقٰدِرُوْنَ : تیسری بات یہ کہ جس طرح ہم نے پانی اتارا ہے اسے لے جا بھی سکتے ہیں، پھر کون ہے جو اسے واپس لا سکے؟ ’’ ذَهَابٍ‘‘ کی تنوین میں نکرہ کے عموم کی وجہ سے ترجمہ کیا ہے کہ ’’ہم اسے کسی بھی طرح لے جانے پر قادر ہیں۔‘‘ مثلاً ہم بارش روک دیں، یا برسنے والا پانی گندا کر دیں جو پینے اور استعمال کے قابل ہی نہ رہے، یا جس طرح یہ آکسیجن اور ہائیڈروجن کا مرکب ہے تو ’’كُنْ‘‘ کہہ کر اسے پھر گیس میں بدل دیں، یا زمین میں اتنا گہرا لے جائیں کہ تم نکال ہی نہ سکو، جیسا کہ فرمایا : ﴿ قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَآؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ يَّاْتِيْكُمْ بِمَآءٍ مَّعِيْنٍ ﴾ [ الملک : ۳۰ ] ’’کہہ دے کیا تم نے دیکھا اگر تمھارا پانی گہرا چلا جائے تو کون ہے جو تمھارے پاس بہتا ہوا پانی لائے گا؟‘‘ یا اسے سخت نمکین بنا دیں جو پیا ہی نہ جا سکے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اَفَرَءَيْتُمُ الْمَآءَ الَّذِيْ تَشْرَبُوْنَ (68) ءَاَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْهُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ (69) لَوْ نَشَآءُ جَعَلْنٰهُ اُجَاجًا فَلَوْ لَا تَشْكُرُوْنَ ﴾ [ الواقعۃ : ۶۸ تا ۷۰ ] ’’پھر کیا تم نے دیکھا وہ پانی جو تم پیتے ہو؟ کیا تم نے اسے بادل سے اتارا ہے، یا ہم ہی اتارنے والے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اسے سخت نمکین بنادیں، پھر تم شکر ادا کیوں نہیں کرتے؟‘‘ یا اس میں سے وہ برکت نکال لیں جو ان لوگوں کو عطا ہوتی ہے جنھیں ہم عطا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ آیت سورۂ ملک کی آیت (۳۰) : ﴿ قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَآؤُكُمْ غَوْرًا ﴾ سے زیادہ وسعت رکھتی ہے۔ صاحب روح المعانی نے زیر تفسیر آیت کے سورۂ ملک کی آیت سے زیادہ بلیغ ہونے کی اٹھارہ وجہیں ’’التقریب لتفسیر التحریر والتنویر للطاہر ابن عاشور‘‘ سے نقل کرنے کے بعد مزید بارہ وجہیں ذکر کرکے انھیں تیس تک پہنچا دیا ہے۔ صاحب ذوق حضرات وہاں ملاحظہ فرمائیں۔