وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَائِقَ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِينَ
ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے ہیں (١) اور ہم مخلوقات میں غافل نہیں ہیں (٢)۔
1۔ وَ لَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَآىِٕقَ: اللہ تعالیٰ نے موت کے بعد زندگی کی دلیل کے طور پر انسان کی اپنی پیدائش کا ذکر فرمایا، جو غور کرنے والے کے لیے کافی تھی، مگر اس کے بعد اس سے بھی کہیں بڑی مخلوق آسمانوں اور زمین کا اور ان میں رکھی ہوئی نعمتوں کا ذکر فرمایا۔ قیامت کی دلیل کے طور پر اللہ تعالیٰ اکثر انسان کی پیدائش کے ذکر کے بعد آسمانوں اور زمین کی پیدائش کا ذکر فرماتا ہے اور اس سے پہلے یا بعد قیامت کا ذکر فرماتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَآءُ بَنٰىهَا (27) رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوّٰىهَا (28) وَ اَغْطَشَ لَيْلَهَا وَ اَخْرَجَ ضُحٰىهَا (38) وَ الْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا﴾ [ النازعات : ۲۷ تا ۳۰ ] ’’کیا پیدا کرنے میں تم زیادہ مشکل ہو یا آسمان؟ اس نے اسے بنایا۔ اس کی چھت کو بلند کیا، پھر اسے برابر کیا ۔ اور اس کی رات کو تاریک کر دیا اور اس کے دن کی روشنی کو ظاہر کر دیا اور زمین، اس کے بعد اسے بچھا دیا۔‘‘ اسی طرح دیکھیے سورۂ مومن (۵۷) اور سورۂ سجدہ کی شروع کی آیات۔ 2۔ فَوْقَكُمْ : زمین کے کسی حصے پر چلے جاؤ آسمان اوپر ہی ہو گا۔ 3۔ سَبْعَ طَرَآىِٕقَ:’’ طَرَآىِٕقَ ‘‘ ’’طَرِيْقَةٌ‘‘ کی جمع ہے۔ ’’طَارَقَ يُطَارِقُ‘‘ اور ’’أَطْرَقَ‘‘ کا معنی ایک دوسرے پر چڑھانا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم ترکوں سے لڑو گے۔‘‘ پھر ان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا : (( كَأَنَّ وُجُوْهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطَرَّقَةُ )) [ بخاري، الجہاد والسیر، باب قتال الترک : ۲۹۲۸ ] ’’ان کے چہرے (ایسے چوڑے ہوں گے) جیسے وہ ایسی ڈھا لیں ہیں جن پر چمڑا چڑھایا ہوا ہے۔‘‘ ’’طَارَقْتُ بَيْنَ الثَّوْبَيْنِ‘‘ ’’میں نے دو کپڑے اوپر تلے لیے۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ یہ ساتوں آسمان ایک دوسرے کے اوپر ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللّٰهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ﴾ [ نوح : ۱۵ ] ’’کیا تم نے دیکھا نہیں کہ کس طرح اللہ نے سات آسمانوں کو اوپر تلے پیدا فرمایا۔‘‘ ’’طَرَقَ يَطْرُقُ ‘‘ (ن ) ’’ضَرَبَ‘‘ کے معنی میں بھی آتا ہے، ہتھوڑے کو ’’اَلْمِطْرَقَةُ‘‘ اسی لیے کہتے ہیں۔ ’’طَرِيْقٌ‘‘ کا ایک معنی راستہ بھی ہے، کیونکہ وہ چلنے والوں کی ٹھوکر میں ہوتا ہے۔ آسمانوں کو ’’طَرِيْقَةٌ‘‘ اس لیے بھی کہتے ہیں کہ وہ فرشتوں کی آمد و رفت اور احکام الٰہی کے نزول اور اعمال کے اوپر جانے کے راستے ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّ مِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ وَّ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا ﴾ [ الطلاق : ۱۲ ] ’’اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور زمین سے بھی ان کی مانند ۔ان کے درمیان حکم نازل ہوتا ہے، تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر خوب قدرت رکھنے والا ہے اور یہ کہ اللہ نے یقیناً ہر چیز کو علم سے گھیر رکھا ہے۔‘‘ 4۔ وَ مَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غٰفِلِيْنَ : ’’ كُنَّا ‘‘ استمرار (ہمیشگی) کے لیے ہے، اسی لیے ترجمہ میں ’’کبھی‘‘ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یعنی ایسا نہیں کہ انسانوں اور آسمانوں کو پیدا کرنے کے بعد ہم ان سے بے خبر اور بے تعلق ہو گئے ہوں، یا انھیں کسی داتا، دستگیر یا گنج بخش کے حوالے کر دیا ہو، نہیں، ایسا نہ کبھی تھا نہ ہو گا۔ ان کا وجود تو قائم ہی ہمارے علم اور ہماری قدرت کی بدولت ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْاَرْضِ وَ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَ مَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَ مَا يَعْرُجُ فِيْهَا وَ هُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ ﴾ [ الحدید : ۴ ] ’’ وہ جانتا ہے جو چیز زمین میں داخل ہوتی ہے اور جو اس سے نکلتی ہے اور جو آسمان سے اترتی ہے اور جو اس میں چڑھتی ہے اور وہ تمھارے ساتھ ہے، جہاں بھی تم ہو اور اللہ اسے جو تم کرتے ہو خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘ اور دیکھیے سورۂ انعام (۵۹)۔