سورة المؤمنون - آیت 14

ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ ۚ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پھر نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنا دیا، پھر خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کردیا، پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنا دیں، پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنا دیا (١) پھر دوسری بناوٹ میں اسے پیدا کردیا (٢) برکتوں والا ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے (٣)۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً ....:’’ عَلَقَةً ‘‘ کا معنی جمے ہوئے خون کا ٹکڑا بھی ہے اور جونک بھی۔ پھر اللہ تعالیٰ پانی کے سفید سیال قطرے کو سرخ جمے ہوئے خون کے جامد ٹکڑے کی شکل دے دیتا ہے جو جونک کی شکل کا ہوتا ہے اور جونک ہی کی طرح رحم کی دیوار کے ساتھ چپکا ہوا ہوتاہے۔ مزید دیکھیے سورۂ حج (۵)۔ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ: یعنی پھر ہم اس میں روح پھونکتے ہیں تو وہ نہایت خوب صورت دیکھنے، سننے، سمجھنے اور حرکت کرنے والا انسان بن جاتا ہے۔ جس کی شکل و صورت ہی اور ہوتی ہے۔ اب پہلی صورت کے ساتھ اس کی کوئی مناسبت نہیں، یعنی مٹی سے اس کا دور کا بھی کوئی تعلق نہیں، پہلے بے جان تھا اب جاندار ہے۔ پہلے اندھا، بہرا اور گونگا تھا اب آنکھ، کان اور زبان والا ہے۔ پہلے گوشت کا بے حس ٹکڑا تھا، اب اس کے ذرّے ذرّے میں اللہ تعالیٰ کی عجیب و غریب باریکیاں اور ہزاروں قسم کے احساسات ہیں۔ اس پر آنے والا ہر لمحہ نئی سے نئی تبدیلی لے کر آ رہا ہے، پہلے جنین پھر دودھ پیتا بچہ، جو پیدا ہوتے ہی اپنا اختیار استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے، پھر لڑکا پھر نوجوان پھر جوان پھر ادھیڑ عمر پھر بوڑھا، پھر ایسا بوڑھا کہ بچپن کی کمزوری کی طرف پلٹ جاتا ہے۔ انھی منزلوں میں سے کسی منزل میں اسے موت اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ : اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے انسان کی پیدائش کا ذکر ایسے مدلل اور خوب صورت انداز میں فرمایا ہے کہ خود بخود یہ جملہ زبان پر آجاتا ہے : ﴿ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ﴾ ’’سو بہت برکت والاہے اللہ جو بنانے والوں میں سب سے اچھا ہے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ یہ کسی کلام کی خوبی کی انتہا ہے۔ چنانچہ ایک شاعر نے چند قصیدوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے : قَصَائِدٌ إِنْ تَكُنْ تُتْلٰي عَلٰي مَلَإٍ صُدُوْرُهَا عُلِمَتْ مِنْهَا قَوَافِيْهَا ’’وہ ایسے قصیدے ہیں کہ لوگوں کے سامنے ان کے ابتدائی اشعار پڑھے جائیں تو ان کے آخری اشعار خود بخود معلوم ہو جاتے ہیں۔‘‘ غالب نے کیا خوب کہا ہے: دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے الْخٰلِقِيْنَ : یہاں ’’خَلْقٌ‘‘ کا لفظ ظاہری شکل و صورت بنانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا : وَ اِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّيْنِ كَهَيْـَٔةِ الطَّيْرِ بِاِذْنِيْ [ المائدۃ : ۱۱۰ ] ’’اور جب تو مٹی سے پرندے کی شکل کی مانند میرے حکم سے بناتا تھا۔‘‘ اور جیسا کہ حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تصویر بنانے والوں سے فرمائے گا : (( أَحْيُوْا مَا خَلَقْتُمْ )) [بخاري، البیوع، باب التجارۃ فیما یکرہ.... ۲۱۰۵، عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا ] ’’تم نے جو خلق کیا ہے اسے زندہ کرو۔‘‘ پیدا کرنے اور زندگی بخشنے کے معنی میں خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ 5۔ ’’ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ ‘‘ کے لفظ میں انسان کے حسن و جمال کی طرف بھی واضح اشارہ ہے۔ (بقاعی)